آپ لکھتے ہی کیوں ہیں؟
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو ہر روز ہی سوشل میڈیا پر کچھ نہ کچھ مطالعہ کرنے کو مل جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خوبی اور خامی ہی یہی ہے کہ یہاں جو بھی ہے، جیسا بھی ہے سب چلتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اکثر پوسٹس پر نہ تو کوئی ریگولیٹ نامی چیز موجود ہوتی ہے اور نہ ہی کسی سچ اور جھوٹ کو ناپنے کا کوئی پیمانہ موجود ہے۔ اگر کوئی پیمانہ موجود ہے تو وہ ہے پڑھنے والی کی عقل، سوچ اور شعوری قد و کاٹھ۔ اسی سوشل میڈیا کے شوروغل میں کچھ روز قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اور ہمارے دوست زولفقار علی زلفی کے رفیق عابد میر نے اعلان کیا کہ “ ڈاکٹر کہور خان” کے ساتھ آنلائن بیٹھک سجنے والی ہے۔ اس خبر کے بعد سوشل میڈیا میں یہ بات کافی چلنے لگی لیکن کہور خان کا انٹرویو ہوا، ختم ہوا، ہم دو دنوں تک بحث کرتے رہے اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ راقم خود اس بات کو بھلا چکا تھا، لیکن جب والد محترم سے گفتگو ہوئی (والد بھی اپنے جوانی کے زمانے میں ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ننگی آنکھوں سے کہور خان کے جھوٹے سچ کو دیکھا تھا) انہوں نے نوجوانی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب لیاری میں شہید اسلم بلوچ منشیات کیخلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوتے ہیں، اس وقت کہور خان خود اپنے ایک گروہ کے ہمراہ جو عوامی اجتماعات میں منشیات کو ختم کرنے کیخلاف جدوجہد کرنے کا درس دیا کرتے تھے، وہ خود چرس سے بھری سگریٹ سلگا کر آنکھیں لال کرنے میں مگن ہوتے تھے۔
اب کہور خان چونکہ ایک ایسا چلا ہوا کارتوس ہے جو چلنا تو کجا آواز تک بھی نہیں کرسکتا، اس کے بچاؤ کیلئے یا یوں کہیں سہارا دینے کیلئے کسی نہ کسی ایسے شخص کی ضرورت بھی محسوس کی گئی ہوگی جس کی گرفت موجودہ تحریک پر کہور سے کئی گنا بہتر و موثر ہو۔
بہرحال ہم ان تمام حالات و واقعات کو بے معنی اور بے اثر اور غیر ضروری سمجھ کر درگزر کرکے اپنے کاموں میں مگن تھے کہ اچانک بارہ سالوں کی طویل خاموشی کا سینہ چیرتے ہوئے بی ایس او کے سابقہ مرکزی چیرمین امداد بلوچ نے اعلان کیا کہ اب وہ لکھے گا، جو سچ ہوگا وہ لکھے گا جو ضروری ہوگا وہ لکھے گا ۔ پھر امداد کا سچ سامنے آیا جس نے ہمیں مجبور کیا کہ امداد کے اُس سچ کا مطالعہ کریں، جب قریب سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ جناب سیاسی معاملات سے اس قدر ناواقفیت کا شکار ہیں کہ اب تک وہ دوہزار آٹھ کے کونسل سیشن کے تین روزہ اجلاس سے باہر ہی نہیں نکل پارے ہیں۔ اور انکی گھڑی کی سوئی کا کانٹہ آج بھی غلام محمد کے خلاف زہر اگلنے والے لمحات پر ہی رکا ہوا ہے۔ امداد کا مدعہ آج بھی کہور کی پارٹی کو جواز دینے کیلئے بی این ایم کی مخالفت کرنے اور اسے چار لوگوں کا گروہ قرار دینے کی تگ و دو میں ہی ہے۔
وہ الگ بات ہے کہ خود اسی گروہ کی باگ ڈور سنبھالنے کا اسے موقع فراہم ہوا تو موصوف پتلی گلی سے فرار ہوگئے۔ فراریت اگر ایک جماعت سے ہوتی پھر بھی قابل ہوتی لیکن یہاں تو پوری تحریک سے بارہ سال کا بنواس لیکر اپنی ذاتی زندگی کو برابر کرکے اب اس نعرے کے ساتھ سامنے آئے ہیں کہ میں بلوچ فرزند ہوں اسی لئے جو منہ میں آئے وہ کہونگا۔
کہنے کہنے میں اتنا زیادہ کہہ گئے کہ خود کو رازق بگٹی اور حاصل بزنجو جیسا بنتا دیکھنے کی اپنی دیرینہ خواب کو ہی بیان کرگئے۔
لیکن اب چونکہ حالات نے کروٹ بدل لی ہے۔ اب یہاں ہر ایک چیز بغیر گارنٹی و وارنٹی کی نہیں بکتی تو پھر ایک ایسے شخص کو جو کبھی “آزاد بلوچستان کے نام پر جلسوں اور جلوسوں میں یہ کہتا نہیں تھکتا تھا کہ اب فیصلہ صرف بندوق کی طاقت سے ہی ممکن ہے۔” ایسے شخص کی اچانک اچانک نمودار ہونے، جنگ کی مخالفت کرنے، شہیدوں اور اسیران کی قربانیوں کو ریاستی بربریت کی جگہ صرف حکمت عملی کا لالی پاپ ہاتھ میں دینے جیسے گمراہ کن اور من گھڑت باتوں کو کوئی کیسے کلین چٹ دیکر یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ جو چاہے کریں، آپ جو چاہے لکھیں کیونکہ آپ ڈاکٹر بھی ہیں اور بی ایس او کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
حرف آخر میں ڈاکٹر امداد کے قول کو دہراتے ہوئے اتنا کہونگا کہ “اب ہر ایک بات کا جواب دیا جائیگا” تو یقیناً وہ خود بھی جواب سننے، برداشت کرنے اور سہنے کی ہمت، طاقت اور استطاعت رکھتے ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔