‎نیشنل ازم (قوم دوستی یا نسل پرستی ) – مہر جان

1260

‎نیشنل ازم
(قوم دوستی یا نسل پرستی )

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ

پہلے پہل نیشنل ازم کو نسل پرستی قرار دینے کا ٹھیکہ ریاست کے نصابی کتابوں سے لے کر ریاستی دانشوروں کو دیا گیا کہ وہ محکوم اقوام کی نیشنل ازم کو ہر سطح پہ نسل پرستی سے جوڑیں اور دوسری طرف پاکستانی نیشنل ازم جو قوت سے قائم شدہ فورسڈ کنسٹرکٹڈ نیشنل ازم ہے، اس کا پرچار کریں یا کم از کم اس پہ سوال نہ اٹھائیں ، اسی طرح “پاکستانی قوم” کے روٹس کے لیے انہیں جہاں بہت سی کتابیں لکھنی پڑیں (اعتزاز احسن کی کتاب انڈس ساگا) وہاں سلمان رفیع (جینیسز آف بلوچ نیشنل ازم) میں نو آبادیاتی پالیسیز کے تحت ”پاکستانیت” کو کیسے نافذ کیا جارہا ہے، ایک بہترین تجزیہ اسی امر میں قابل غور ہے۔ پوسٹ کالونیل ازم بھی اس حوالے سے اک بہترین ڈسکورس ہے، آیڈینٹی کو سمجھنے کے لیے کہ کیسے “لسانیات اور طاقت” سے ذہنوں کو مسخر کیا جاتا ہے اس حوالے سے دریدا (سائن )اور گرامشی(کامن سینس) کا مطالعہ “لسانیات”کی حد تک بہت سی چیزیں واضح کرتا ہے، جبکہ “طاقت” کے حوالے سے مشل فوکو کارآمد ہے، اردو کے قارئین کے لیے ناصر عباس نئیر کی کتاب مابعد نو آبادیات بھی مفید ہے، میرے ایک دوست جو پچھلے دنوں لاہور سے آئے تھے، وہ ناصر عباس نئیر کے شاگرد رہے ہیں ان کے مطابق وہ یہ سوال بار بار اپنے استاد کے سامنے اٹھاتا رہا کہ آخر آپ نوآبادیات پہ اس قدر لکھ رہے ہیں کیا وجہ ہے پاکستان کی نوآبادیاتی پالیسیز پہ آپ لوگ خاموش ہیں؟ بقول دوست کے وہ اس معاملے میں ایسے ہی خالی ذہن ہیں جیسا کہ دوسرے اہل قلم لیکن میں انہیں خالی ذہن نہیں سمجھتا بلکہ ریاستی پالیسی سمجھتا ہوں جس کے تحت ریاست کے اہل قلم اور صحافی خاموش ہیں۔

جہاں تک نیشنل ازم و نسل پرستی کی بات ہے، سب سے پہلے یہ واضح کرتا چلوں کہ بلوچ قوم اپنی فطرت میں کثیر النسل ہیں، اس لیے کسی بھی زاویہ سے چاہے اکیڈمک ہو یا کچھ اور، بلوچ نیشنل ازم کو نسل پرستی سے جوڑنا علمی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے کیوںکہ نسل پرستی کا تصور جو قدیم یونان سے پہلے اور یونان میں رائج رہا ہے وہ افتخار و یک نسلی کی بنیاد پہ تھا ارسطو جیسے مفکرین بھی اس بات کے قائل تھے کہ کچھ لوگ فطرت کی جانب سے غلام پیدا کیے گئے ہیں تاکہ وہ یونانیوں کی خدمت کرسکیں یہودیوں کا خدا کی پسندیدہ مخلوق اور اس جیسے نظریات نوآبادیاتی ممالک کے لیے بنیادی جواز رہا کہ انہیں حکومت کرنے کا حق ان کی نسلی برتری اور تہذیب ہے حتی کہ نسل پرستی کو جواز دینے کے لیے کھوپڑیوں کا مشاہدہ سائنسی طور پہ کیا گیا تاکہ کھوپڑیوں کی سائز سے ایک نسل کو دوسری نسل پر سائنسی بنیادوں پہ برتر ثابت کیا جاسکے لیکن سائنس کا جینیٹک بنیادوں پہ ایسا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آج تک بلوچ نیشنل ازم میں اس طرح کا کوئی دعویٰ ہے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع پر، مارکس کے مطابق تاریخ دو طبقات کی کشمکش کی تاریخ رہی ہے، جب کہ ایک اور نکتہ ھیگل کے ہاں یہ ملتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ سے شناخت کی جنگ رہی ہے (بحوالہ آئیڈنٹی فوکویامہ) اس جنگ میں ایک طرف حاکم یعنی طاقتور اور دوسری طرف محکوم کمزور کی جنگ ہمیشہ سے ہوتی آ رہی ہے، حاکم و محکوم ایک دوسرے کی شناخت کو جہاں مٹانے پہ تلے ہوئے ہیں وہیں پہ جدلیاتی تناظر میں ایک دوسرے کی شناخت کو بنانے(شکل دینے میں ) میں بھی اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ ایک اہم نکتہ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے نیشنل ازم کی جانب سے امنگ کا ایک عنصر بقول برٹرینڈ رسل خارجی دشمن کی طرف سے متواتر عسکری حملہ کی دین ہے، یہاں آکر ریاست کے ٹھیکہ دار یا علم سے ناآشنا لوگ ہمیشہ سے ڈنڈی مارتے آرہے ہیں کہ وہ اس “امنگ کے اس عنصر “ کو ہمیشہ سے نظر انداز کرتے ہیں جبکہ ایک محکوم قوم کی نیشنل ازم کو نسل پرستی سے جوڑتے ہیں اور فورسڈ کنسڑکٹد نیشنل ازم کے لیے محکوم کی نیشنل ازم کو کاؤنٹر کرکے روشن خیالی کے منصب پہ خود کو فائز کرتے ہیں۔ اب ریاست اور حاکم اقوام کے لیے روشن خیالی پروجیکٹ کے تحت روشن خیال وہی ٹہرتا ہے جو ہر جگہ محکوم کی نیشنل ازم کو نسل پرستی سے جوڑے اور حاکم کی فورسڈ کنسٹرکٹڈ نیشنل ازم پہ کوئی قد غن نہ لگائے۔

‎کالونائزیشن کی پوری تاریخ اس امر پہ گواہ ہے کہ ڈی کالونائزیشن کا موثر ترین ہتھیار ان کا اپنا ہی ہتھیار نیشنل ازم ہی رہا ہے کیونکہ بہت سے اہل علم کے مطابق نیشنل ازم بھی نوآبادیاتی نظام کی دین ہے لیکن ایک بات واضح کرتا چلوں کہ بلوچ نیشنل ازم نہ صرف بقول عدیل خان (اتھینک نیشنل ازم اینڈ اسٹیٹ ) “انڈسٹریلائزیشن سے پہلے کی ہے” بلکہ پری کالونیل ازم ہے ایسا نہیں ہے ایک سلطنت کے ٹوٹنے سے بلوچ قومیت وجود میں آئی بلکہ بلوچ قوم شروع دن سے مختلف ادوار میں مختلف مراحل پہ مزاحمت در مزاحمت کرکے تھنگ اٹ سیلف سے فاراٹ سیلف کی طرف متواتر بڑھ رہی ہے۔ اس (آئیڈنٹی و مزاحمت)کو جدلیاتی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ کیسے کالونیل ازم کے خلاف ہمیشہ سے مزاحمت کا علمبردار نیشنلسٹ رہے ہیں اور دوسری طرف نیشنلسٹ کے خلاف کیسے کالونائزر پروپیگنڈہ ٹول، نصاب ، لکھاری نبرد آزما رہے ہیں اس کے لیے کسی بھی محکوم کے لیے فینن کی کتاب افتادگان خاک اور مارکس و فرائڈ کے نظریات کے لیے پُل کا کردار ادا کرنے والے ایرک فرام کی کتاب صحت مند معاشرہ بنیادی درجہ رکھتی ہے.

آخر کیا وجہ ہے کہ مزاحمت کو نوآبادیاتی ہمیشہ سے جنگجوانہ مہم کے طور پہ تشہیر کرتے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ جو مجھے سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ کالونیل ازم کے لیے فقط فزیکل طاقت ، ہتھیار کی ضرورت نہیں کالونیل ازم کی سب سے بڑی طاقت وہ ڈسکورس ہے جو ریاست علمی سطح پہ اپنے لوگوں کے عقائد و نظریات میں راسخ کر چکا ہوتا ہے کہ ریاست جو کچھ بھی کررہی ہے، اس میں انہی لوگوں کی بقاء اور ریاست کی بقاء شامل ہے اور حتی الا مکان اس مزاحمت کو مہم جوئی کہنا ، یا پوری قوم کو جنگجو یا وحشی کے طور پہ پیش کرتے ہیں حتیٰ کہ سبط حسن بھی اپنی کتاب “موسیٰ سے مارکس تک” کے دیپاچہ میں بہت سی قوموں کے لیے لفظ “وحشی” استعمال کیا ہے اور یہی نوآبادیاتی ممالک کی سب سے بڑی دلیل تھی یورپ ہمیشہ سے اپنے لوگوں میں یہ جواز دینے میں کامیاب رہا کہ ان پہ حکومت کرنا ہمارا حق بنتا ہے تاکہ ان وحشیوں کو تہذیب یافتہ کیا جاسکے، یہی بنیادی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی ادوار میں سب سے پہلے کسی بھی قوم کے روایات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، اس قوم کو ہر طریقہ سے باور کرایا جاتا ہے کہ تم نرے جاہل ، گنوار اور جنگجو ہو اس کی سب سے بڑی مثال بلوچستان میں گیس کی دریافت کے وقت مقامی لوگوں کو یہ کہہ کر گیس فراہم نہیں کیا گیا کہ کہیں یہ لوگ اپنے آپ کو جلا نہ دیں (صورت خان مری کے کالم ) اسی طرح حال میں اس کی بڑی مثال گوادر ہے، جہاں سامراجی پروجیکٹس بغیر مقامی افراد کی مرضی و پارٹیسپشن کے چل رہے ہیں، نیشنل ازم کو نسل پرستی سے جوڑنا بقول استاد میر محمد علی تالپور کے دراصل “اور وہ لوگ جو اس دلیل کو بڑھاوا اور فروغ دیتے ہیں کہ نیشنلزم فاشزم ہے، وہ عوام کے خلاف ریاستی تشدد میں اس کے معاون اور عوام کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں برابر کے شریک ہیں”

اس لیے نوآبادیاتی ممالک کا پہلا ٹارگٹ اکیڈیمیا ، میڈیا میں یہی ہے کہ کس طرح نیشنل ازم کو نسل پرستی سے جوڑ کر مقامی نوجوانوں میں اپنی جدوجہد کے حوالے سے ابہام پیدا کیے جائیں، ہمارے سنگتاں کو فینن کی یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کسی کی شناخت سے انکار ہی نسل پرستی ہے نہ کہ محکوم اقوام کی قوم دوستی و جدوجہد کو نسل پرستی سے جوڑا جائے، میرے خیال میں قوم دوستی کبھی بھی نسل پرستی کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اپنے بچوں سے محبت کبھی بھی دوسروں کے بچوں سے نفرت کا پیغام نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنے بچوں کی آزادی خوشحالی تمام بچوں کی آزادی و خوشحالی کے لیے سوال بنتا ہے، اسی لیے لینن نے کہا تھا کہ چھوٹی چھوٹی قومیتوں کی آزادی کے بغیر ہم انٹرنیشنل ازم کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔