بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں آج انٹرنیٹ کی عدم سہولت میں آنلائن کلاسوں کے اجراء کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے طلباء کی گرفتاری اور ان پر ہونے والے تشدد کے خلاف ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ کوئٹہ پولیس کے ہاتھوں طلباء اور ایک صحافی کی گرفتاری انتہائی قابل مذمت ہے۔”
انسانی حقوق کی تنظیم نے مزید کہا کہ “ طلباء گذشتہ ایک ماہ سے سراپا احتجاج ہیں، جو آن لائن کلاسوں کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حکام کو انکے مطالبات مان کر اور ان کی فالفور رہائی یقینی بنانا چاہیئے۔”
دریں اثناء نیشنل پارٹی کے سابق صدر سینیٹر حاصل بزنجو نے سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئیٹر پر طلباء کی گرفتاری کو ایک شرمناک عمل گردانتے ہوئے کہا ہے کہ “ پرامن احتجاج کرنے والے طلباء کو کوئٹہ میں گرفتار کرنا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔ طلباء کا مطالبہ انتہائی سادہ ہے۔ اگر انکے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوگی تو وہ آنلائن کلاسیں بھلا کیسے لے سکیں گے؟ کیا آپ انہیں صرف یہ سوال اٹھانے پر گرفتار کروگے۔”
آخری اطلاعات تک گھنٹوں گذرنے کے باوجود درجنوں کی تعداد میں احتجاجی طلباء کوئٹہ کے مختلف تھانوں میں بند ہیں جن میں بڑی تعداد طالبات کی بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس طالب علم رہنما ماہ رنگ بلوچ کو گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈال رہی ہے جن کے ہمراہ دوسرے طالب علم ایکٹویسٹوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس واقعے پر سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے بھی سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کو دیکھیں، انہوں نے کہا کہ “ ان طلباء کے خلاف آخر کیونکر وحشتناک طاقت کا استعمال کیا جائے جو محض انٹرنیٹ تک رسائی کا مطالبہ کررہے ہیں؟ یہ طلباء قوم کا اثاثہ ہیں، انہیں عزت و احترام دیا جائے، انکے حقیقی مسئلوں کو سنیں بجائے انہیں مارنے پیٹنے کے۔”
یاد رہے کرونا وائرس کی وجہ سے تمام یونیورسٹی کلاسوں کو آن لائن منتقل کیا گیا ہے، اور بلوچستان کے طلباء گذشتہ ایک ماہ سے سراپا احتجاج ہیں کہ بلوچستان بھر میں سیکورٹی فورسز نے سالوں سے انٹرنیٹ کی سہولت منقطع کی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ کلاسیں لینے سے قاصر ہیں، انہیں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔