ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے – جمیل فاکر

104

ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے

تحریر: جمیل فاکر

دی بلوچستان پوسٹ

ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
میں دنیا کو غالب کی طرح اپنے سامنے بازیچہ اطفال نہیں کہہ سکتا کہیں آپ مجھے بوڑھا نہ سمجھیں۔ ویسے اب سمجھنے اور سمجھانے کیلئے وقت نہیں ۔ موضوع بہت سارے ہیں جن پہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے، مگر سوال اُٹھتا ہے کہ کیونکر لکھا یا کہا جائے؟ بات یہ نہیں کہ کوئی درد دل پڑھنے یا سننے والا نہیں بات یہ ہے کہ درد دل سنانے سے کیا حاصل کہ سُنانے کے باوجود بھی درد دل میں ہی رہ جائے، لکھنے کا تعلق صرف تزکیہ نفس سے نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔

زمانہ طالب علمی میں اپنے محترم اساتذہ سے سنا کہ صحافت کے طالب علموں کیلئے اخباروں کے ادارتی صفحے پڑھنا اور ٹیلی ویژن پر حالات حاضرہ کے پروگرام دیکھنا فرض ہے۔ سو فرمانبردار شاگردوں کی طرح اخبار سے چپک گئے اور ٹی وی کے سامنے اُکھڑو بیٹھنا عادت بنا لیا۔ کالم نگاری اور ٹی وی پر میزبانی کے خواب نظر آنے لگے کچھ سنئیر صحافی حضرات کو آئیڈیل بنا لیا ۔ جب جزوی طور پر صحافت کے میدان میں اترے تو سب تدبیریں الٹے پڑ گئے ۔ ہمارے سامنے ہونے والے شب روز کے تماشے کیسے ملکی میڈیا کے زینت بننے لگے ایک ہی خبر پڑھتے ہی چاروں طبق روشن ہوگئے، مگر پھر بھی پلے کچھ نہ پڑا کہ ایسا کیو ں ہے؟ پھر کتابیں چھان کر پروپیگنڈا کے عنوانات کا رج کہ رٹا لگایا تو تھوڑی سی تسلی ہوئی کہ ملکی او ر قومی مفاد میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ اب یہ ملکی اور قومی مفاد کے اصطلاحات کے مطالعے کیلئے ہزاروں صفحات پر مبنی کُتب چھان مارے مفاد کی تو سمجھ آگئی پر بیچاری قوم کہیں نظر نہیں آیا ۔ البتہ یہ سمجھ آگیا کہ شروع سے آج تک وطن عزیز نازک دور سے گُزر رہا ہے۔

جہاں ادارے مفلوج ہوں، وہاں کچھ کہنا بے کار ہے، ویسے ہم جیسوں کے پاس وقت بہت ہے مگر کیا،کیوں اور کیسے کہے؟ سب سے پہلے ملک کے آئین کو ہی لیجئے آج تک اس پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے کوئی قانون دان ہی بتادے کہ آئین سے عوام کو کیا ملا؟ روٹی کپڑا مکان تو اس آئین کے آڑ میں چھن گئے کہ حق مانگنا جُرم ہو گیا، خاموشی عبادت بن گئی ۔ جب ماروائے عدالت قتل اور ملکی باشندوں کو جبری لاپتہ کرنے کیلئے ملک کے چیف جسٹس مشورے دے کر راہ ہموار کرے تو اور کہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ آج صحافت کے سورماوں کے تجزئیے پڑھ کو او ر سن کر ہول اُٹھتا ہے۔ گھنٹوں ایسے موضوعات پہ پروگرام ہوتے ہیں، جن کا عوام سے دور تک تعلق نہیں۔ ویسے بھی میڈیا سرمایہ داروں کے زیر اثر ہے تو وہاں عوام کی بات کیونکر ہو ۔

معصوم برمش کے زخموں کو کیوں کوریج دی جائے ۔ سانحہ ہزار ٹاون کے موضوع کو کیوں چھیڑ ا جائے ۔ برمش کیلئے پورے بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں ہونے والے احتجاج کو کیوں دکھایا جائے؟ آج ان جیسے او ر واقعات کے کئی دن گُزر چکے ہیں۔ ریاستی میڈیا میں تو انکو جگہ نہ مل سکی کیونکہ پالیسوں نے انہیں مفلوج بنا رکھا ہے ۔ مگر کسی صحافی نے سوشل میڈیا پہ بھی کچھ لکھنا اور کہنا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ ایسے موضوعات سے نہ تو کسی اچھے ہاوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ مل سکتا ہے اور نہ ہی کسی غیر ملکی دورے کی اُمید ہے حب وطن مجاہدیں کی طرف سے جو گالیاں پڑتی ہیں، غدار اور کافر جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے وہ ذلت الگ ۔

لیکن لکھاری حضرات کی بھی اپنی مجبوریاں کہ وہ اپنی بات کو کسی اور فن مطلب رقص وغیرہ کے ذریعے بھی سمجھا نہیں سکتے ۔ اور سمجھا کر بھی کیا اُکھاڑ لینگے ۔ کیونکہ ہمارے مفلوج اداروں نے ہمیں ذہنی طور پر اتنا مفلوج بنا رکھا ہے کہ ہم لوگ اپنے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو چھُکے ہیں۔ جب سوچنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے تو خاموشی بہتر نہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔