کیچ میں سانحہ دازن کیخلاف احتجاج

263

تمپ میں سانحہ دازن کے خلاف احتجاج، آل پارٹیز اور سول سوسائٹی کی طرف سے ریلی کا انعقاد کیا گیا۔

سانحہ تمپ دازن کے خلاف نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی، سول سول سوسائٹی اور انجمن تاجران کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

ریلی کے شرکاء تمپ کی مختلف گلیوں اور سڑکوں پر بینر اور پلے کارڈ اٹھائے شدید نعرے لگاتے رہیں۔

مظاہرین شہر کے مرکزی چوک پر جمع ہوگئے جہاں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے رہنماؤں نصیر گچکی، تمپ کے صدر محمد خان گچکی، نیشنل پارٹی تمپ کے صدر محمد بخش بلوچ، بی این پی عوامی کے امین قریش، معروف شاعر بشیر بیدار، سول سول سوسائٹی کے عباس حسن اور واحد لعل نے کہا کہ سانحہ دازن بلوچ ثقافت پر براہ راست حملہ ہے اس کا مطلب یہ پیغام دینا ہے کہ بلوچ اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں اور نا ہی ان کے کلچر اور روایات محفوظ ہیں۔

انہوں نے کہا جب تک ہم متحد ہو کر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کریں گے ہمارے ساتھ جبر اور زیادتی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

خیال رہے دازن واقعہ دو روز قبل پیش آیا جہاں رات کو نامعلوم مسلح افراد ایک گھر میں گھس گئے اور لوٹ مار شروع کردی اس دوران گھر میں موجود خاتون کلثوم کو اس کے چار بچوں کے سامنے چاکو سے قتل کردیا اور اس کے زیورات کو لوٹا گیا، ملزمان موقع سے فرار ہوگئے۔

واقعہ کیخلاف گذشتہ روز بھی تمپ کے علاقے دازن، ملانٹ، نذر آباد اور کلاہو میں عوام کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

ریلی مقتول کی گھر دازن سے شروع ہوکر تمپ کی مختلف گلی کوچوں سے ہوتا ہوا پولیس تھانہ کے سامنے اختتام پزیر ہوا۔

ریلی کے شرکاء سے معروف ادیبہ بانک عندلیب گچکی اور شیرجان گچکی نے خطاب کیا جبکہ دھرنے کے شرکاء سے اسسٹنٹ کمشنر رحمت مراد نے مذاکرات کرکے قاتلوں کے گرفتاری کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد شرکاء منتشر ہوگئے۔

ایچ آر سی پی اسپیشل ٹاسک فورس تربت مکران کے ترجمان نے واقعے کو  انتہائی سفاکانہ، غیر انسانی، غیر اخلاقی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے ڈھنک میں 26 مئی کی رات ایک ایسا سانحہ پیش آیا تھا جب ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ملک ناز نامی عورت کو شہید کردیا گیا جن کے قاتلوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے تمام واقعات میں ڈاکو اور چور اپنا تعلق سیکیورٹی اداروں سے جوڑتے رہے ہیں جو تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے پہلے تربت گلشن آباد میں ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا اس کے بعد آبسر، گوکدان، نوک آباد میں بھی ایسے دلخراش واقعات ہوئے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت ان واقعات کی روک تھام میں مسلسل ناکام ثابت ہورہی ہے۔

واضح رہے گذشتہ دنوں ڈھنک میں پیش آنے والے اسی نوعیت کے واقعے کے بعد بلوچستان اور بیرون ممالک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈہنک واقعہ کیخلاف نیدر لینڈز کے شہر امسٹرڈم میں “برمش یکجہتی کمیٹی” کے زیر اہتمام پیر کے روز ایک مظاہرہ کیا گیا جس میں مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی غنڈہ گردی کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔

مظاہرین نے کہا کہ ریاستی سرپرستی میں پلنے والی ڈیتھ اسکوارڈ نے گذشتہ دنوں ڈھنک میں ملکناز کو شہید کردیا اور اس کی چار سالہ بیٹی برمش کو زخمی کردیا جبکہ اب تمپ کے علاقے دازن میں بھی کلثوم کو شہید کر دیا گیا۔

مظاہرین نے کہا کہ ہم جانتے ہیں یہ سب ریاستی سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے مہذب اداروں کو اس کی نوٹس لینی چاہیے۔