کیمرے کی آنکھوں سے پرے
ٹی بی پی اداریہ
بلوچ طلباء گذشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے بلوچستان میں آن لائن کلاسوں کیلئے انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پہلا احتجاجی کیمپ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں لگائی گئی اور دیکھتے دیکھتے یہ سلسلہ پورے بلوچستان میں پھیل گیا اور طلباء کو انٹرنیٹ و دیگر سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔
چوبیس جون کو مختلف طلباء تنظیموں نے اپنے احتجاجی کیمپوں سے بلوچستان ہائی کورٹ کا رخ کیا تاکہ وہاں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جائے لیکن انکے ارادوں کے برعکس انہیں پولیس کی جانب سے انتہائی جارحیانہ رویے اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔ درجنوں طلبہ و طالبات کو سڑکوں پر مارتے اور گھسیٹتے ہوئے پولیس کی گاڑیوں میں بھر کر جیل منتقل کیا گیا۔ اور یہ سب کیمرے کی آنکھ کے ٹھیک سامنے ہو رہا تھا۔
دیکھتے یہ دیکھتے یہ پر تشدد وڈیو انٹرنیٹ پر اس قدر پھیل گئے کہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ میں طلباء کی رہائی کا مطالبہ کیا جانے لگا اور اس ٹریند نے نہ صرف علاقائی سیاست دانوں کی توجہ حاصل کی بلکہ بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں نے بھی پولیس کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے طلباء کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ دباو کے بڑھتے ہی وزیر اعلیٰ جام کمال نے اس بات کا اعتراف کر ڈالا کہ گرفتاری کا حکم نامہ صوبائی حکومت نے نہیں دیا تھا (کہیں اور سے آیا تھا)۔
بہرحال، اس پورے منظر نامے نے متعدد سوالات جنم دیئے ہیں۔ بلوچستان کی پولیس فورس صوبائی حکومت کے ماتحت ہے یا اسے بھی حکم نامے کسی دوسری قوت کی جانب سے ملتے ہیں؟ اگر پولیس فورس، جو فرنٹئیر کور جتنا بدنام بھی نہیں اپنے، بے رحمانہ تشدد کا استعمال کرتے ہوئے، سرے عام کیمرے کے سامنے اتنی بے رحمی سے طلباء و طالبات پر طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتا تو بلوچستان کے ان علاقوں میں کیا کچھ ہوتا ہوگا، جو دور دراز ہیں اور جہاں کیمرے کی آنکھ کبھی نہیں پہنچ پاتی؟
شاید ان سوالات کا جواب دو ہزار دس میں چھپنے والے پاکستان کے معروف اخبار ڈان نیوز کے ایک تراشے میں پیوست الفاظ میں ہیں، جہاں بلوچستان کے شہر خضدار میں دہشت طاری کردینے والے ایک واقع کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ سنہ دو ہزار میں بلوچ طلباء ڈگری کالج خضدار سے اسی طرح کی ایک پر امن ریلی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فرنٹیر کور (ایف سی) اہلکاروں نے طلباء پر اندھا دھند گولیاں برساتے ہوئے، دو نوجوانوں صدام اور علی دوست کو قتل کر ڈالا اور مزید چار طالب علم زخمی کردیئے جن میں لیاقت علی نامی بلوچستان انجینئرنگ یونیورسٹی کا طالب علم بھی شامل تھا، جو آج تک ایک پیر سے محروم ہے۔
یہ بلوچستان میں کیمرے کے پیچھے پیش آنے والے ہزاروں واقعات میں سے محض ایک ہے، جسے ایک پاکستانی اخبار میں جگہ ملی، بیشترواقعات توجہ حاصل کیئے بغیر ظلم کی انکہی داستان بن کے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے۔ یہ واقعات نہ صرف وزیر اعلی جام کمال کے حیرت کا جواب ہیں کہ گرفتاریوں کا حکم اگر انکی جانب سے نہیں آیا تو کہاں سے آیا؟ اور یہ واقعہ اس امر کی بھی وضاحت کردیتا ہے کہ اکیسویں صدی کا بلوچستان کو انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم کیوں رکھا گیا ہے؟
بلوچستان میں فوجی اسٹبلشمنٹ اس سوچ پر قائم ہے کہ جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے اسکی بھنک تک باہر کسی کو نہیں لگنی چاہیئے۔