بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3992 دن مکمل ہوگئے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ملک نصیر شاہوانی سمیت دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وی بی ایم پی کے ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ صورت کو سامنے رکھ کر بلوچ قوم پر گزرنے والی اس آزمائش و امتحان کے لمحات میں ان کرداروں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو اس مشکل وقت میں اپنے جان، مال، گھروں، رشتہ داروں کی قربانیوں کے ساتھ میدان عمل میں خود سے کئی گناہ بڑے دشمن کے مقابلے میں بھوک پیاس برداشت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ظالم مظلوم، حاکم محکوم، قابض مقبوض کے درمیان جنگ کے واقعات سے بھری دنیا کی تاریخ میں طاقت ور اور زور آور اقوام کا کمزور اور زیردست اقوام پر ظلم و جبر اور تشدد نئی بات نہیں، ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی طاقت ور قوم اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے کسی کمزور قوم کی آبائی سرزمین پر قبضہ جماکر اسے غلام بناتا ہے تو وہ اس قوم کے ہر طبقے کے افراد ماسوائے چند بے ضمیر غداروں کے اپنا دشمن تصور کرکے تہذیب، مروجہ اصول اور جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ سرزمین پر قبضہ جمانے کے بعد ریاست پاکستان نے بلوچ قوم کی آواز کو دباکر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے فوجی کاروائی، فضائی کاروائی، حراستی قتل، انسانیت سوز تشدد سمیت ہر قسم کے وحشیانہ ہھتکنڈے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے قبضے کے ساتھ قابض افواج نے بلوچ قوم پر ظلم و جبر کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا تھا جو پوری آب و تاب کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔ مسلسل بمباری کرکے عورتوں، بچوں اور پیراں سال بزرگوں سمیت ہزاروں معصوم بلوچوں کو موت کے آغوش میں دھکیل دیا گیا ہے۔