بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4002 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر گیارہ سال سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے بیٹی سمی بلوچ اور مہلب بلوچ سمیت لاپتہ حسان قمبرانی کی بہن حسیبہ بلوچ اور دیگر افراد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ خواتین پر تیزاب پاشی، گھروں میں گھس کر شہید کرنا، اشیاء کی لوٹ مار، معصوم بچوں کو زخمی کرنا، ان پر علم شعور کے دروازے بند کرنا ریاستی پالیسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ خواتین ابتداء سے پرامن جدوجہد میں فعال اور شعوری کردار ادا کرتی رہی ہے، خصوصاً پاکستانی اداروں کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی کے خلاف وی بی ایم پی کے پلیٹ فارم سے 4002 دنوں سے جاری علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ، 300 کلومیٹر طویل لانگ مارچ میں خواتین کے فعال کردار نے ایک جانب بلوچ فرزندوں کی بازیابی میں کردار ادا کیا دوسری جانب پاکستان کی انسانیت سوز بلوچ نسل کشی کو بے نقاب کرنے میں کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں پاکستانی اداروں کی کاروائیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں، ریلیوں میں بلوچ خواتین پیش پیش رہی ہے۔ بلوچ خواتین کا یہ فعال اور شعوری کردار ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے لیے باعث تشویش بنی ہوئی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ خواتین کے جس کردار کا میں نے ذکر کیا وہ پاکستانی اداروں کو کھٹکتا ہے اس لیے وہ خواتین کو نشانہ بناکر تحریک سے ان کے کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ معاشرہ چونکہ ایک سیکولر معاشرہ ہے جس میں مذہبی آزادی، رواداری کی روایت بہت قدیم اور مضبوط ہے۔ اس طرح بلوچ معاشرہ میں خواتین کے فعال کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔