کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

240

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3990 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ڈاکٹر صبیحہ، ایکٹوسٹ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، نیشنل پارٹی کے ملک نصیر احمد شاہوانی، میر عبدالغفار قمبرانی نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچ قومی پرامن جدوجہد ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایک طرف شعور فکر اور نظریہ بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل رہا ہے اور لوگوں میں ایک جذبہ پیدا ہورہا ہے، اپنے لخت جگروں کی بازیابی اور اس غلامی سے چھٹکارے اور اپنے حالت زار کو بدلنے کیلئے عملی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب قابض ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ لوگوں کے پرامن جدوجہد کو سپوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست  اپنے تمام ریاستی وسائل، ڈیتھ اسکواڈز کو بروئے کار لاکر بلوچ نسل کشی، خواتین کی بے حرمتی، ڈکیتی، ماں بہنوں کی سرعام قتل، بلوچ نسل کشی کے عمل کا آغاز کرچکا ہے۔ ریاست ایک طرف بلوچ آبادیوں پر آتش و آہن برساکر عام شہریوں کے قتل عام کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اپنے روایتی مارو اور پھینکو پالیسی پر تندہی سے بدستور عمل پیرا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ آج بلوچ فرزندوں، خواتین کی پرامن جدوجہد کی عالمی پزیرائی میں ایک بڑا کردار ہے جنہوں نے اپنے لازوال قربانیوں اور انتھک محنت سے فلسفہ تحریک کو ہر بلوچ کے ذہن میں نقش کردیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست بلوچ پرامن جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے جہاں اپنی فوجی قوت کو بے دریغ استعمال کررہا ہے وہی اپنی لے پالک سول اداروں کو قوم پرستی کے جھوٹے لبادے میں اوڑھ کر بلوچ پرامن جدوجہد کے اثرات کو عالمی سطح پر زائل کرنے کی کوشش میں ہے۔