کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ، بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کرلی

1385
بی ایل اے کیجانب سے 2020 میں کراچی میں اسٹاک ایکسچینج کو نشانہ بنایا گیا۔

آج کراچی میں پاکستان کے سب سے بڑے بازار حصص کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے ایک حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے مطابق مقابلے میں چار حملہ آوروں کو مارا گیا ہے اور یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہیں اسٹاک ایکسچینج کے ٹریڈ مارکیٹ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ حملہ اسٹاک ایکسچینج کھلنے سے پانچ منٹ قبل مقامی وقت کے مطابق تقریباً صبح ساڑھے نو بجے ہوا۔ سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چار حملہ آور ایک سرمئی گاڑی سے اتر کر سیکیورٹی کے پہلے حصار پر حملہ کرکے اہلکاروں کو ہلاک کرتے ہیں۔ جس میں ایک حملہ آور کی لاش وہاں دیکھی جاسکتی ہے جبکہ تین حملہ آوروں کو سیکورٹی حصار توڑ کر اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

کراچی پولیس ترجمان کے مطابق داخلی دروازے پر دستی بم حملے اور فائرنگ سے ایک سب انسپکٹر اور دو محافظ ہلاک ہوئے، اور مجموعی ہلاکتوں کی تعداد دس ہے جبکہ ترجمان کے مطابق تین پولیس اہلکار، دو سیکیورٹی گارڈ اور دو شہری زخمی ہوئے ہیں۔

دریں اثناء جھڑپوں دوران ہی بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے میڈیا ادارے “ہکل ” سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ” بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے آج کراچی اسٹاک ایکسچینج پر فدائی حملہ کردیا ہے۔ ہمارے جنگجو ابھی تک عمارت کے اندر موجود ہیں اور انہوں نے ایک حصے کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔”

بی ایل اے کی جانب سے حملہ آوروں کی تصاویر بھی جاری کی گئی۔

مزید اطلاعات کے مطابق حملے کے دو گھنٹے بعد بلوچ لبریشن آرمی نے مجید بریگیڈ کے مذکورہ حملہ آوروں کی تصاویر اور نام بھی میڈیا میں جاری کیئے، جس میں وہ مجید بریگیڈ کے روایتی یونیفارم میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ جاری تصویر کے مطابق حملہ آوروں کے نام تسلیم بلوچ عرف مسلم، شہزاد بلوچ عرف کوبرا، سلمان حمل عرف نوتاک، سراج کنگر عرف یاگی ہیں۔

میڈیا میں جاری ہلاکتوں کی خبریں اور حملے کو روکنے کا دعویٰ اب تک پاکستانی سیکورٹی اداروں کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ بی ایل اے نے تاحال اس حملے کی مزید تفصیلات و مقاصد جاری نہیں کی ہیں، جبکہ میڈیا میں بھی محض دو حملہ آوروں کی لاش منظر عام پر آئی ہیں۔

پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اس حملے کے بعد پورے علاقے کو گھیرے میں لے چکی ہے۔ پولیس ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ چاروں حملہ آوروں کو مارا جاچکا ہے اور انکے پاس سے جدید اسلحہ، بارود اور سازو سامان قبضے میں لیا گیا ہے۔

کراچی سٹاک ایکسچینج کا دفتر آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے اور اس کے ساتھ سٹیٹ بینک آف پاکستان، پولیس ہیڈ کوارٹر اور کئی دیگر بینک اور میڈیا ہاؤسز کے دفاتر ہیں۔ یہ علاقہ اپنے معاشی اہمیت کی وجہ سے پاکستان کا ” وال اسٹریٹ ” کہلایا جاتا ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے۔ یہ 18 ستمبر 1947 کو قائم کی گئی۔

یاد رہے مجید بریگیڈ بلوچ لبریشن آرمی کی ایلیٹ یونٹ ہے، جو خود کش اور فدائی حملوں کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ بی ایل اے مجید بریگیڈ کی بنیاد تنظیم کے سابق سربراہ اسلم بلوچ نے 17 مارچ 2010 کو ڈالی تھی۔ اسکے بعد مجید بریگیڈ نے پہلا حملہ 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ میں سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے اور مبینہ طور پر بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈوں کے سرغنہ شفیق مینگل پر کیا تھا۔ اس کے بعد دوسرا حملہ 11 اگست 2018 کو اسلم بلوچ کے اپنے جوانسال بیٹے ریحان بلوچ نے دالبندین میں چینی انجنیئروں کے ایک گاڈی پر کیا تھا۔ تیسرا حملہ 23 نومبر 2018 کو ہوا تھا، جب مجید بریگیڈ کے تین ارکان نے کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملہ کردیا تھا۔ 11 مئی 2019 کو مجید بریگیڈ کے چوتھے بڑے حملے میں چار فدائی حملہ آوروں نے گوادر میں چار ستارہ ہوٹل پی سی پر حملہ کرکے چوبیس گھنٹوں تک اس پر قبضہ جمائے رکھا۔ جبکہ آج 29 جون 2020 کو کیا جانے ولا کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ مجید بریگیڈ کا پانچواں بڑا حملہ ہے۔ اس حملے میں بھی چار فدائی حملہ آوروں نے حصہ لیا ہے۔