کب تک خاموش رہوگے – عابد بلوچ

980

کب تک خاموش رہوگے

عابد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لیڈر وہی ہے جو حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے اپنے قوم کو مستقبل میں پیش آنے والے خدشات اور اندیشوں کے بارے میں آگاہ کرتا ہے. آج بلوچستان میں شہید مک ناز اور شہید کلثوم جیسے واقعات نے اس عظیم طلباء لیڈر کے ان خدشات کو ظاہر کردیا جو آج سے دس سال پہلے سبی کے عام شاہراہ پر کھڑے ہوکر بلوچ قوم کو بتادیا تھا. یہ بلوچ قوم کا باشعور نوجوان بی ایس او آزاد کا لیڈر شہید شفیع بلوچ تھا. شہید شفیع بلوچ آج سے دس سال پہلے سبی کے بازار میں کھڑے ہوکر اپنے قوم کے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا ” اس سرزمین پر آج ہماری عورتیں محفوظ نہیں ہیں. اسی سبی کے تھانے میں اگر آپ کو یاد ہوگا اگر آپ باغیرت بلوچ ہو اگر آپ میں کچھ بھی شرم ہے، سبی کے تھانے میں مری بلوچوں کی عورتوں کو لایا گیا تھا، ہم لوگوں نے کیا کیا؟ کب تک اس طرح خاموش رہو گے؟ خدا کی قسم اگر اس طرح رہے تو ہزار پگڑیاں اس طرح مشرف کو باندھی جائیں گی، ہزار بگھی کھینچے جائیں گے. ان بگھی والوں کو، ان میر و معتبر کو جو ڈی سی آفس میں سوئے ہوئے ہیں ان دلالوں کو ان غداروں کو جو اپنی سرزمین پر اپنی ماں کا سودا کر رہے ہیں ان کے گلے پکڑو ان کے پگڑی اچھال دو”

بیشک آج بالکل وہی میر و معتبر ہماری ماؤں بہنوں کے عزتیں اچھال رہے ہیں. ان کی ہمت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آج ہمارے عورتوں پر گولی چلا رہے ہیں، ہماری عورتوں کے گردن کاٹ رہے ہیں. اے کاش بلوچ قوم اسی وقت اس نوجوان کے فکر کو الفاظ کو سمجھ کر اپنا لیتے ان الفاظ پر عمل کرتے تو آج قطعاً یہ واقعہ درپیش نہیں ہوتا. آج کسی میر و معتبر میں یہ جرات نہیں ہوتا کہ ریاست کے دو ٹکے کیلئے ڈیتھ اسکواڈ بناکر ریاستی خونخوار ہتھیار اپنے نوجوانوں، عورتوں، بوڑھوں پر استعمال کرتا. آج اتنے آزادی سے ہمارے گلی کوچوں میں اس طرح خونخوار درندوں کے طرح دندناتے نہیں پھرتے. اگر ہم اول دن سے ان نواب و سردار، میر و معتبر کے ان کالے کرتوتوں کے خلاف اٹھتے تو آج بلوچستان کے کونے کونے میں یہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے اس طرح آزادی سے نہیں گھومتے. نوجوان ان کے خونخوار عزائم کے حصہ دار نہیں بن تھے.

آج ہمارے علاقوں میں یہ لوگ سرعام اسلحہ کے زور پر نوجوانوں کو ڈرا دھمکا کر قومی جدوجہد سے دور کرنے کا ناکام کوشش کر رہے ہیں. ہمارے گھروں کو لوٹ کر ہمارے عورتوں پر تشدد کر رہے ہیں. سرعام کالے شیشوں والے بڑے بڑے گاڑیوں میں گھوم کر مارخور کا اسٹیکر لگا کر لوگوں کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ ہم بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ کے خلاف برسرپیکار ہیں. لیکن ہمیں تمام علاقوں میں بچوں، نوجوانوں اور عورتوں میں ان کے خلاف یہ شعور پھیلانا ہے کہ ان کی ہمارے قومی تحریک کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، یہ آج دو پیسے اور کچھ آسائش کی خاطر اپنا منہ کالا کر رہے ہیں، ان کے اس کردار پر ان کے آنے والے اولاد بھی لعنت بھیجیں گے کیونکہ آج ہمیں اس چیز کی شاہدی تاریخ سے ملتی ہے. ہمیں اپنے بچوں کو ان قوتوں اور ان کے علاقائی غنڈوں کے خلاف یوں ذہن سازی کرنا ہے تاکہ کل کسی خوف و خطرہ کے بغیر ان کے خلاف ہوجائیں. اگر آج ریاست کے بیشمار اسلحے، گاڑیاں اور دیگر سہولیات ان کو ہمارے قومی سوچ و جدوجہد کے وارثوں کے خلاف دیکر استعمال کر رہے ہیں تو یہاں ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہے گا یہ بس دو دن کے ریاست کے زیر سایہ غنڈہ گردی، بدمعاشی، چوری، ڈکیتی اور نوجوانوں کو اغواء کرتے رہیں گے، پھر کل یہی ریاست خود انہیں قتل کرے گی ان کو تاریخ قومی غدار کے لقب سے یاد کرے گی.

آج بھی قومی جنگوں میں کچھ نام بڑے فخر اور شاذونادر طریقے سے یاد کیے جاتے ہیں اور کچھ نام اور ان کی موت عبرت کا نشان بنا ہوا ہے.

آج شہید شفیع بلوچ کا یوم شہادت ہے بلوچستان کی تاریخ میں ایسا کوئی دن نہیں جہاں اس وطن کی فرزندوں کا یوم شہادت نہ ہو اس سرزمین کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے. آج ہمارا ایمان ہے کہ فتح اس سرزمین کی آزادی کا مقدر ہے.

آج ان حالات میں جہاں ایک طرف ریاست اپنے وحشی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ہمارے عزت و آبرو کے ساتھ کھیل رہے ہیں تو دوسری طرف ہمارے نوجوانوں کے ذہن کو مفلوج کرنے اور ان کو ان مظالم کے خلاف بولنے سے دور کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں. بس صرف اپنے خاموش بیٹھے نوجوانوں کے سامنے شہید شفیع بلوچ کا یہ سوال دہراتا ہوں “کب تک خاموش رہو گے؟”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔