اٹھائیس جون کو ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو گیارہ پورا ہونے پرعالمی سطح پراحتجاجی پروگرام منعقد کیاجائے گا۔ترجمان بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بی این ایم کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو گیارہ سال پورا ہونے پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے تحریک سے وابستہ سیاسی دانشور اور پختہ فکر و شعورکے حامل افراد کو حراست بعد لاپتہ کرنا اور انسانیت سوز اذیت کا نشانہ بنانا اور دوران حراست تشدد سے شہید کرنا پاکستانی ریاست کا معمول بن چکا ہے کئی سالوں سے جاری اس وحشت ناک عمل میں ہزاروں لوگوں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر ٹارچر سیلوں میں منتقل کیا ہے یہ عمل آج بھی جاری ہے لوگ دن دھاڑے اٹھائے جارہے ہیں اس وقت ہزاروں افراد ریاست کے خفیہ زندانوں میں قید ہیں، لیکن ذمہ دارعالمی اداروں کی بے حسی، خاموشی اپنے بنیادی فرائض سے غفلت اورپاکستان کے خلاف عملی اقدام اٹھانے سے گریز اں ہونے کی وجہ سے بلوچ قوم اور لواحقین کے لئے لاپتہ ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو اٹھائیس جون 2009 کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے دوران ڈیوٹی اورناچ ضلع خضدار سے ان کی سرکاری رہائش گاہ سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا ڈاکٹر دین محمد بلوچ نہ صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کا مرکزی رہنماء ہے بلکہ وہ ایماندار اور قابل معالج کے طورپر سرکاری شعبہ صحت میں خدمات سرانجام دے رہے تھے انہیں اس طرح لمبے عرصے سے اذیت گاہوں میں پابند سلاسل رکھنا ا نسانیت سوزواقعہ ان کی خاندان کو ناقابل بیان کرب میں مبتلا اوربلوچ قوم کو ایک بہادر لیڈر سے محروم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے پرامن احتجاج کے تمام راستے آزمائے حتیٰ پاکستان کی عدالتوں کے بھی دروازے کھٹکھٹائے لیکن پاکستان کی عدالتیں ریاستی فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہوکر دنیا کے عدالتی تاریخ کے لئے بدنما داغ بن چکے ہیں نام نہاد سول سوسائٹی بھی اس انسانی المیے پر خاطر خواہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہے بلوچستا ن میں پاکستان کے ہاتھوں ایک انسانی المیہ جنم لے چکاہے اس المیے میں ریاست کے تمام عناصر بشمول عدالتی نظام برابرکے شریک ہیں کیونکہ تمام ریاستی عناصر بشمول عدلیہ بلوچ قوم پر واضح کرچکے ہیں کہ وہ ریاستی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بی این ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ ریاستی اذیت خانوں میں ہزاروں تشدد سہنے والوں میں سے ایک ہیں انہیں آج پاکستانی عقوبت خانوں میں گیارہ سال مکمل ہوچکے ہیں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کیلئے ان کی بیٹیاں سمّی بلوچ اور مہلب بلوچ نے تاریخ ساز جدوجہد کی ہے یہ بہادر بچیاں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج میں زندگی گزار کر بڑی ہوگئی ہیں وہ طویل جدوجہد میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی کوئٹہ تا اسلام آباد ٹرین مارچ اور کوئٹہ سے کراچی او رکراچی سے اسلام آبادتک تاریخی پیدل لانگ مارچ کا بھی حصہ رہیں مگر ان کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی آزادی کے جہد سے دستبردار کرانے کیلئے قابض ریاست اجتماعی سزا سمیت مختلف طریقوں سے سیاسی کارکنوں کے خاندانوں کو نشانہ بنانا شروع کرچکی ہے اس میں خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں اس اجتماعی سزا کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو کچلنا ہے مگر بلوچ عوام اور سیاسی کارکن سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کی تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں ہمیں ڈاکٹر دین محمد جیسے رہنماؤں کا لاپتہ ہونا اور کئی رہنماؤں کے شہید ہونے کا دکھ ضرور ہے مگر ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم ان بیش بہا قربانیوں کے بدلے اپنا مقصد بلوچستان کی آزادی حاصل کر کے سیاسی اسیروں اور شہداء کے ارمانوں کی تکمیل کریں گے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی عدم بازیابی اور اس مسئلے کو دنیا میں متعارف کرانے کیلئے عالمی سطح پراحتجاجی پروگرام کا انعقاد کیاجائے گا اور سوشل میڈیا میں #SaveDrDeenMohdBaloch کے ہیش ٹیگ سے اٹھائیس جون کو ایک آن لائن مہم چلائے گی تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ اس میں بھرپور شرکت کریں بی این ایم کے تمام زونوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اٹھائیس جون احتجاج اور پروگرامز کا انعقاد کریں بی این ایم کی جانب سے اٹھائیس جون کو ایک آن لائن اجلاس کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔