چیئرمین ایچ ای سی کے نام کھلا خط
تحریر: محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ
بنام جناب طارق بنوری صاحب
چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن
جناب چیئرمین صاحب!
شاید آپ بلوچستان کے طلبہ و طالبات کے مظاہرے اور بھوک ہڑتالی کیمپوں کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے ہو کے یہ وہ عناصر ہیں جو بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے نہیں چھوڑ تے یا یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر محنت و مشقت کے پاس ہونا چاہتے ہیں. یا جناب آپ کو کسی نے غلط فہمی میں ڈالا ہے کہ یہ جو احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، یہ سب نالائق ہیں، نہ پڑھنا جانتے ہیں نہ لکھنا، یہ لوگ بس نقل کے ذریعے اور شارٹ کٹ پاس ہونا چاہتے ہیں۔
نہیں نہیں ہر گز نہیں، جناب چیئرمین صاحب، مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اب بلوچستان کے طلبہ وطالبات تعلیم کے معاملے میں کسی چھوٹی سی رکاوٹ کو بھی برداشت نہیں کرتے، آج مقابلے کے امتحانات میں آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ بلوچستان میں کتنے ٹیلنٹڈ اسٹوڈنٹس موجود ہیں. جناب آپ ان طلبہ و طالبات کی تعلیم دوستی مقابلے کے امتحانات کے نتائج سے لگاسکتے ہیں. جناب آپ اگر تھوڑا سا زحمت اٹھا کر بلوچستان آکر خود سروے کریں، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ کس معاشی تنگ دستی میں اتنی محنت اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں. کتنے دور سے شدید گرمی میں پیدل چل کر تعلیم گاہ تک پہنچتے ہیں. اس بے سروسامانی کے حالت میں بھی اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں. اس جدید دور میں بھی قدیم زمانے کے طرز پر تعلیم حاصل کررہے ہیں. محترم چئیرمین آپ خود ان کو آزماؤ کس محنت اور لگن سے ہزاروں میل دور جاکر تعلیم حاصل کرتے ہیں. آج بھی بلوچستان کے زیادہ تر طلباء کراچی، لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، جامشورو، لاڑکانہ، سکھر غرض دوسرے صوبوں میں انتہائی تنگ دستی کے عالم میں اپنے تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں.
جناب چئیرمین صاحب! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنا گھر اس تعلیم کیلئے چھوڑ سکتا ہے بھلا وہ کیسے تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتا، یہ کیسے ہوسکتا ہے، تعلیم کیلئے تمام مصائب مشکلات کو جھیل لیتاہو، پھر تعلیم دشمن بن جائے؟ جناب، بلوچستان کی غربت کا شاید آپ کو اندازہ نہیں یہ تعلیم کے دیوانے اپنا دن کا کھانا ترک کرتے ہیں تاکہ تعلیم کے اخراجات پورا ہوسکیں.
محترم! شاید آپ کو اس وبا سے پہلے وقت نہیں ملا تھا کہ کسی کالج یا یونیورسٹی کی لائبریری کا دورہ کرتے پھر آپ کو معلوم ہوتا کہ کون باہر ٹائم پاسی کرتا ہے اور کون لائبریری کے اندر مطالعہ میں مشغول رہتا ہے.
جناب! میں آپ کو یہ دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں آج ان احتجاج مظاہرے کرنے والوں کے پچھلے سال کے تعلیمی نتائج چیک کرے اگر ان میں ٪99 طلباء اچھے مارکس سے پاس نہیں ملے بالکل پوری میڈیا میں آپ ان کو تعلیم دشمن قرار دو. چونکہ میں ایک ایک کو پرسنلی جانتا ہوں کس کے کتنے مارکس ہیں. یہاں تک کہ آپ کو پوزیشن ہولڈرز بھی دکھاؤں گا.
جناب، یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ یہ لوگ تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتے، یہ لوگ نقل سے پاس ہونا چاہتے ہیں یا یہ لوگ شارٹ کٹ طریقے سے آگے دوڑنا چاہتے ہیں. نہیں نہیں ہر گز نہیں.
محترم! آج اگر یہ لوگ احتجاج مظاہرے کر رہےہیں تو مجبور ہوکر کر رہے ہیں، کون اتنا بے وقوف بنتا ہے کہ اس عالمی وبا میں اپنے جان پر کھیل کر باہر نکلتا ہے. آپ ان کا تعلیم سے لگن کا اندازہ اس سے لگاسکتے ہو کہ جہاں عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے ہر روز ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں وہی یہ لوگ اپنے تعلیم کیلئے سراپا احتجاج بن گئے ہیں. یہ لوگ ہرگز اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے. بس یہ لوگ آن لائن کلاسس اٹینڈ کرنے کی انٹرنیٹ کے سہولت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔.
جناب اگر آپ کو ان سارے دلائل کے باوجود بھروسہ نہیں آرہا تو آج ہی اپنے آن لائن کلاس کے ریجسٹریشن کے لسٹ چیک کرو کہ یہ لوگ شدید گرمی میں دور دراز علاقوں سے شہر آکر اپنا ریجسٹریشن کروارہے ہیں. لیکن یہ کلاسز تو ایک دن کی نہیں ہیں جناب کہ اتنے سارے طلبہ و طالبات انٹرنیٹ والے علاقوں تک آئیں، اپنے تعلیم کے سفر کو جاری رکھیں، یہ تو کلاسز اور لیکچرز کا معاملہ ہے، یہاں تو ہر روز طالب علم کو حاضر رہنا پڑتا ہے. یہ تو ہر روز کا معاملہ ہے، تو پھر جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے وہاں کیا کریں؟ آپ کو تھوڑا سوچیں کہ آخر یہ طالب علم کیسے اپنے آن لائن کلاسس کو اٹینڈ کرتے رہے جہاں انٹرنیٹ کجا عام موبائل نیٹورک نہیں ہے.
جناب چیئرمین صاحب! آپ کا دوسرا آپشن فریز کا ہے آج آپ بلا جھجک یہ کہہ رہے ہیں کہ جن اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہیں وہاں کے طلبہ و طالبات اپنے سمیسٹر فریز کریں. جناب یہ کونسا آپشن ہے، یہ تو طالب علم دشمن پالیسی ہے. کیوں اس ملک میں اور ایج(over age) کا سلسلہ ختم ہوا ہے؟ کیا ہمارے اکثر طالب علم اس مسئلے کا شکار نہیں ہوتے.
جناب، خدارا تھوڑا سوچ سمجھ کر پالیسی بنائیں، بلوچستان سمیت ملک کے ان طلباء کے زندگیوں سے مت کھیلے تو انتہائی محنت اور مشقت سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں. یہ لوگ ہرگز یہ نہیں چاہتے ہیں کہ کلاسس نہیں ہو. بلکہ ان کا تو یہی کہنا ہے کہ کلاسس ضرور ہوجائے لیکن طالب علم کیلئے ہوجائے برائے نام نہیں. پوری ملک کے طلبہ و طالبات کیلئے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تاکہ کوئی اپنے تعلیمی سفر سے پیچھے نہیں رہ جائے.
جناب چیئرمین صاحب! آپ کی خدمت میں اس مسئلہ پر کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں
پہلی تجویز. سب سے پہلے بلوچستان کے جن اضلاع میں انٹرنیٹ کی نیٹورک نہیں ہیں، وہاں نیٹورک کو بحال کیا جائے. بالکل مناسب اور آسان مسئلہ کا حل.
دوسری تجویز. HEC کی طرف سے تمام کالج اور یونیورسٹی کے ہاسٹلز SOPs اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان طلباء کیلئے کھول دیا جائے جن کے ضلع میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے.
اگر تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کھولنے میں دشواری پیش آتی ہے تو پھر تیسری تجویز یہ ہے ملک کے بڑے بڑے شہروں کے تمام رہائشی ہاسٹلز کو ان متاثرہ طلباء کیلئے بک کیا جائے.
نیک تمنائیں
محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔