پشتون، بلوچ اور سندھی نسل کشی – مشتاق علی شان

886

عارف وزیر سے برمش بلوچ اورنیاز لاشاری تک
پشتون، بلوچ اور سندھی نسل کشی

تحریر: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان میں بلوچ ، پشتون اور سندھی نسل کشی نے ایک ایسی صورت اختیار کر لی ہے جس کا ہر نیا اظہار پہلے سے زیادہ بھیانک نوآبادیاتی جبر واستبداد، وحشت اور بربریت پر مبنی ہوتا ہے ۔یکم مئی 2020کی شام جنوبی وزیرستان کی سیاست کے فعال کردار اور” پشتون تحفظ موومنٹ “(PTM) کے اہم اور بانی رہنماوں میں شمار ہونے والے عارف وزیر کے جسم میں ریاستی پروردہ ”گڈ ٹیررسٹ“یا ”گڈ طالبان“ کی بندوقوں سے گولیاں اتاری گئیں اور 2مئی کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے ۔ قتل سے قبل کے دو سالوں میں ان پر مختلف مقدمات قائم ہوئے اور اس دوران انہوں نے کم از کم 15ماہ جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل میں گزارے تھے۔عارف وزیر کے بہیمانہ قتل کا ذمہ دارکون ہے؟ اس سوال کا جواب نا صرف وزیرستان ، پختونخوا بلکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ صرف ” یہ جو نامعلوم ہیں ،یہ سب کو معلوم ہیں“ یا ”یہ جو دہشت گردی ہے ،اس کے پیچھے وردی ہے “ کا نعرہ ہی نہیں بلکہ اپنے قتل سے قبل عارف وزیر خود کہہ گئے تھے کہ ”اگر مجھ پر حملہ ہوا تو اس کی ذمہ دار ریاست ہو گی۔“ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست نے اپنی یہ “ذمہ داری” نہ صرف پوری کی بلکہ پختونخوا سے لے کر سندھ اور بلوچستان تک میں بھی “بخوبی” ادا کر رہی ہے ۔ یہاں تک کہ جب عارف وزیر کے بہیمانہ قتل کے خلاف پختونخوا کے مختلف شہروں میں پُر امن احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو بنوں، مردان اور دیگر شہروں میں درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔

”پشتون تحفظ موومنٹ “ کے قیام سے سے آج تک، کوئٹہ میں ارمان لونی ، وزیرستان میں خڑ کمر اور اس جیسے متعدد سانحات کے قتلِ عام، عارف وزیر اور پختونخوامیں پی،ٹی ،ایم کے بے شمار متحرک کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ سے ،جبری گمشدگیوں ،انتقامی کارروائیوں کے طور پرجھوٹے مقدمات میں مرکزی رہنما منظور پشتین سے لیکر وزیرستان کے منتخب عوامی نمائندوں علی وزیر ، محسن داوڑ سمیت بے شمار کارکنوں کی گرفتاریاں کیا ثابت کرتی ہیں ؟۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں عارف وزیر کے چہلم کے موقع پر ”پشتون تحفظ موومنٹ “کے رہنما منظور پشتین نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ “عارف وزیر کی شہادت کے چالیس دن مکمل ہوئے ،لیکن اس کے انصاف کے متعلق ریاست نے ابھی تک ایک بات بھی نہیں کی۔ ریاست کے یہ اعمال پشتونوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے بڑے فیصلے پر مجبور کرے گی۔“

دوسری جانب ابھی عارف وزیر کے بہیمانہ قتل کا ایک ماہ بھی نہیں تھا ہوا کہ بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے ڈنک میں ریاستی سرپرستی میں بلوچ سیاسی کارکنوں، دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ پر مامور ڈیتھ سکواڈز کے کارندوں کے ہاتھوں اس وقت ایک بلوچ خاتون ملکنازکے قتل اور اس کی معصوم بیٹی برمش بلوچ کے زخمی ہونے کا واقعہ ایک ایسا شعلہ بن کر بھڑکا جس کے نتیجے میں ناصرف بلوچستان بھر بلکہ سندھ کے مختلف شہروں میں ” برمش یکجہتی کمیٹی “ کے زیر اہتمام احتجاج کا سلسلہ شروع ہو ا جس کی گونج عالمی سرحدیں پار کرتے ہوئے ،یونان، جرمنی اور فرانس تک میں سنائی دی ۔ “برمش بلوچ کو انصاف دو”کا مطالبہ نوآبادیاتی حاکموں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے امن، آزادی اور اعلیٰ آدرشوں پر یقین والوں انسانوں سے ہے اسی لیے ناصرف بلوچ قوم بلکہ ہر وہ آواز جو انسانی آزادی اور اس کے شرف اور وقار میں یقین رکھتی ہے بلوچستان میں سات دہائیوں سے جاری نسل کشی کے اس تسلسل کے خلاف بلند ہوئی اور ہو رہی ہے۔اس دلخراش واقعہ نے دنیا بھر پر ثابت کر دیا کہ ایک طرف بلوچستان میں ریاستی بیانیے کے مقابل سیاسی بیانیہ رکھنے والے سیاسی ، سماجی و ادبی کارکنوں، دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے،ان کے تشدد زدہ اور مسخ زدہ لاشیں پھینکے جاتے ہیں ، سالہا سال سے ہزاروں سیاسی مساعی پسند جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں تو دوسری جانب ریاست نے اپنے پروردہ ڈیتھ سکواڈز کو بلوچ عوام میں مزید خوف وہراس اور عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

ننھی برمش بلوچ کے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ ایک آبدیدہ بلوچ لڑکی حسیبہ قمبرانی کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس کا ایک بھائی گزین قمبرانی اور کزن سلمان قمبرانی کو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے کے بعد 2015میں ان کی تشدد زدہ مسخ لاشیں پھینک دی گئی تھیں اور اب 14 فروری 2020 کو کوئٹہ سے ان کے ایک اور بھائی حسان قمبرانی اور کزن حزب اللہ قمبرانی کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہے ۔اسی طرح تربت سے دو سال قبل جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جانے والے امام اسحاق کی بہن فاطمہ بلوچ ظلم کی ان داستانوں کا ایک باب بن گئی جس کے بھائی کی جبری گمشدگی ذہنی دباؤ کا وہ روگ بن گئی جو آخر اس کی خود کشی پر منتج ہوئی ۔ بلوچ کس جہنم زار میں کن عذابوں سے گزر رہے ہیں ؟یہ صرف بلوچ ہی جانتے ہیں وگرنہ ان کے اطراف تو ریت میں سر دبائے شتر مرغ ہی بستے ہیں۔

جبر کی ایک بھیانک ریت ہے۔ ٹارگٹ کلنگ سے قتال تک نسل کشی کی مختلف شکلوں ، جبری گمشدگیوں اور تشدد زدہ مسخ لاشوں کا ایک سلسلہ ہے جو بلوچستان سے لیکر سندھ اور پختونخواتک میں جاری ہے ۔ جبری کی اس ریت ، اس نسل کشی کا تازہ واقعہ گزشتہ روز سندھ کے ایک سیاسی کارکن نیاز لاشاری کی تشدد زدہ لا ش کی کراچی میں برآمدگی ہے ۔ نیاز لاشاری کا تعلق ” جئے سندھ قومی محاذ“( آریسر) سے تھا اور وہ اس کی نیشنل کانگریس کا رکن بھی تھا ۔ اسے 16اپریل 2018کو کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور پانچ ماہ بعد حیدرآباد میں دہشت گردی کے مقدمات میں اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی ۔ لیکن اس کے تقریباً چھ ماہ بعد یکم اپریل 2019کو نیاز لاشاری کو دوبارہ اس وقت جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ حیدر آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے بعد واپس جا رہا تھا ۔

”وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ “ سمیت متعدد سیاسی وسماجی جماعتوں اور اس کے لواحقین سمیت نیاز لاشاری اور سندھ کے دیگر مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے کراچی،حیدرآباد،لاڑکانہ اور شکارپور سمیت سندھ کے متعدد شہروں میں مظاہرے ہوئے ۔لیکن کل 16جون کو14ماہ کی جبری گمشدگی کے بعد اس کی تشدد زدہ اور سر پر گولی لگی لاش کراچی میں پھینک دی گئی ۔’ ’وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ “ کی کنوئینر سورٹھ لوہار نے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیتے اور بھرپور جدوجہد کا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ ،ایمنسٹی انٹرنیشنل ،سمیت دنیا کی تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ سندھ میں سیاسی جدوجہد کو کچلنے کا نوٹس لیا جائے۔جب کہ آج نیاز لاشاری کے بہیمانہ ماورائے عدالت قتل جبری گمشدگیوں کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید برآں کل ہی کے دن کراچی میں ” ایم کیو ایم“ کراچی ڈیفنس کلفٹن سیکٹر کے سینئر کارکن آصف حسین صدیقی جو آصف پاشا کے نام سے معروف تھے، کی تشددہ زدہ لاش ملی ہے ۔ آصف پاشا کو 22 فروری 2019کو ایم کیو ایم کے دیگر کارکنوں کے ہمراہ پیرا ملٹری فورس رینجرز نے گرفتار کیا تھا لیکن ان کی گرفتاریاں قانون کے مطابق ظاہر نہیں کی گئیں، جس پر 23فروری2019کو متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے مذمتی بیان جاری کیا تھا ۔ ان گرفتاریوں کے تیسرے دن رینجرز نے دیگر کارکنان کی گرفتاریاں ظاہر کی لیکن آصف پاشا کو مفرور قرار دیا گیا ۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اسی دن اپنے بیان میں آصف پاشا کے ماورائے عدالت قتل کے خدشے کا اظہار کیا تھا جو کل سولہ ماہ بعد درست ثابت ہوا ۔

ظلم اور بربریت کی کوئی ایک داستان نہیں ہے، جو بلوچستان اور سندھ سے لے کر پختونخوا تک میں لکھی جا رہی ہے ایک جانب ماورائے عدالت قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب سیاسی ،سماجی اور ادبی کارکنوں اور ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی جبری گمشدگیاں عروج پر ہیں ۔ اس کی ایک مثال پختونخوا کے سرگرم اور معروف سماجی، انسانی حقوق کے کارکن،اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سے منسلک رہنے والے ادریس خٹک ہیں جن کی زیادہ تر تحقیق کا محورپختونخوا اور بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے افراد رہے ہیں ۔ ان کی جبری گمشدگی کو سات ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ ان کی بازیابی کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متعدد بار پشاور سے کراچی تک میں مظاہرے بھی ہوئے ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت بین الاقوامی تنظیمیں ان کی جبری گمشدگی کا معاملہ حکومت پاکستان سے اٹھاتے ہوئے جواب طلب کر چکی ہیں ۔ گذشتہ ہفتے نا صرف ادریس خٹک کی بیٹی طالیہ خٹک کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ اپنے والد کی گمشدگی کا مطالبہ کر رہی تھیں بلکہ کراچی پریس کلب پر ” جوائنٹ ایکشن کمیٹی “ نے ایک احتجاجی مظاہرے میں ان کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ان کی جبری گمشدگی سے متعلق ایک رپورٹ لاپتہ افراد کےکمیشن کو موصول ہوئی ہے جو دفتر خارجہ میں جمع کروا دی گئی ہے۔ لیکن دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس کی تصدیق نہیں کی۔” “انڈپینڈنٹ اردو “ کی اس رپورٹ کے بموجب ”مسنگ پرسن کمیشن کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق ادریس خٹک سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی جاری ہے۔“اب ان سے کوئی پوچھے کہ وہ کون سی” قانونی کارروائی “ہے جس کے لیے ریاستی اداروں نے قانون اور آئین کو ہمیشہ کی طرح روندتے ہوئے ادریس خٹک کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے اور اسے نامعلوم مقام پر رکھا ہوا ہے؟

ریاستی بیانیے سے مختلف سیاسی بیانیہ رکھنے والے سیاسی ، سماجی ، ادبی ،کارکنوں ، دانشوروں ، لکھاریوں ، صحافیوں تک کا یہ مسلسل ماورائے عدالت قتل،جبری گمشدگیاں ، جھوٹے مقدمات ، ڈیتھ سکواڈز، نام نہاد امن کمیٹیاں، گڈ طالبان اور ایسے بے شمار گروہ کس لیے اور کیوں ہیں؟ ۔ کیوں ریاستی اداروں کے ہاتھوں آئین وقانون سے صریحاََ روگردانی کی روش پر کچھ بولنا ، لکھنا تک جرم بنا دیا گیا ہے ؟۔اگر کسی پر کوئی الزام وارد ہے تو کیوں اس پر مقدمہ درج نہیں کیا جاتا ؟، کیوں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا ؟۔یا پھر عدالتیں، قانون اور آئین جنھیں عضوئے معطل بنا کر رکھ دیا گیا ہے اس کا تکلف ہی ختم کر دیا جائے ۔دنیا کا کون سا معاشرہ اور کون سا قانون ہے جو ان مطالبات کی مخالفت کرے گا ؟.

بصورتِ دیگرجس طرح آنکھیں بند کر لینے سے سورج چھپ نہیں جاتا اسے نوآبادیاتی جرائم اور نسل کشی ہی کہاجائے گا، اسے نوآبادیاتی نظام کہا جائے گا جو بلوچستان، سندھ اور پختونخوا سے لیکر کشمیر اور گلگت بلتستان تک پر مسلط ہے۔خواہ اس کے لیے کوئی جو چاہے تاویل یا جواز گھڑے، ” نظریاتی“ قلابازیاں کھائے دنیا کے ضمیر پر یہ سوالیہ نشان موجود رہے گا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔