والدہ نے ہاتھ جوڑے، دوپٹہ پاؤں پر رکھا لیکن بھائی کی لاش ملی

252
COURTESY ATHAR LASHARI

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لاپتہ سندھی قوم پرست کارکن نیاز لاشاری کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔

ملیر ضلع کی حدود میں نیشنل ہائی وے کو سپر ہائی وی سے جوڑنے والے لنک روڈ پر واقع سمندری بابا کے مزار کے قریب سے منگل کی صبح ایک لا وارث لاش ملی۔

سٹیل ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او شاکر کے مطابق مقتول کو گولی لگی ہوئی تھی جبکہ ان کی جیب میں سے شناختی کارڈ ملا جس پر نام نیاز لاشاری اور پتہ ڈکھن تحریر تھا جس کے بعد لاش قانونی کارروائی کے لیے جناح ہسپتال روانہ کر دی گئی۔

ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ نیاز کی دو بار جبری گمشدگی ہوئی۔ پہلی بار گرفتاری ظاہر کی گئی اور دوسری مرتبہ لاش ملی۔

نیاز کی دو بار جبری گمشدگی ہوئی۔ پہلی بار گرفتاری ظاہر کی گئی اور دوسری مرتبہ لاش ملی۔

نیاز لاشاری کے چھوٹے بھائی اطہر لاشاری نے بی بی سی کو بتایا کہ صبح ساڑھے دس بجے کے قریب انھیں تھانے بلایا گیا۔

جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں بھائی کا شناختی کارڈ اور تصویر دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ ان کی لاش ملی ہے جو جناح ہسپتال میں موجود ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جب وہ جناح ہسپتال پہنچے تو ’وہاں موجود نیاز کی لاش کے سر پر ایک گولی لگی ہوئی تھی اور ان کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔

اس کے بعد وہ لاش فلاحی ادارے چھیپا سینٹر لائے جہاں سے غسل، کفن کے بعد وہ اسے اپنے گاؤں شکارپور لے گئے۔

32 سالہ نیاز لاشاری کا تعلق شکارپور کے قصبے ڈکھن سے ہے اور وہ کچھ عرصے سے کراچی کے علاقے ملیر میں اپنے خاندان کے ساتھ آباد تھے جہاں وہ درزی کا کام کرتے تھے۔

اطہر لاشاری کے مطابق رہائی کے بعد انھوں نے کہا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی ہے اس لیے درزی کے کام میں دشواری ہوتی ہے لہٰذا وہ کرائے پر رکشہ چلانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے اس کے فیصلے کی تائید کی جس کے بعد وہ رکشہ ڈرائیوری کرتے تھے۔

نیاز لاشاری کی وابستگی جیئے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ سے تھی اور وہ مرکزی کونسل کے رکن تھے۔

ان کی بازیابی کے لیے تنظیم کی جانب سے سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی کنوینر سورٹھ لوہار کا کہنا ہے کہ نیاز لاشاری کو 10 جنوری 2019 کو حیدرآباد میں واقع انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔

وہ عدالت میں پیشی کے بعد واپس گھر جارہے تھے کہ انھیں اغوا کیا گیا۔

سورٹھ لوہار کے مطابق نیاز لاشاری کو 16 اپریل 2018 کو ملیر کے علاقے پپری میں واقع ان کے گھر سے سادہ کپڑوں میں اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے اور بعد میں جیئے سندھ قومی محاذ کے ایک اور لاپتہ کارکن بلاول چانڈیو کے ساتھ حیدرآباد میں ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی تھی۔

نیاز لاشاری کے بھائی اطہر لاشاری نے بتایا کہ حیدرآباد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ نیاز لاشاری کو دستی بموں سمیت گرفتار کیا گیا ہے اور وہ تخریب کاری کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد انھوں نے ضمانت کرا لی تھی اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی پر گئے تھے کہ انھیں لاپتہ کیا گیا۔

نیاز لاشاری کی جبری گمشدگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد میں ان کی والدہ کی جانب سے آئینی درخواست بھی دائر کی گئی تھی، جو ابھی زیر سماعت تھی اور کورونا وائرس کی وجہ سے دوبارہ سماعت ملتوی ہوئی تھی۔

اطہر لاشاری کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے ہائی کورٹ کے جج سے چیمبر میں ملاقات کی تھی، عدالت نے سرکاری وکیل کو کہا تھا کہ اگر نیاز لاشاری اداروں کی حراست میں ہیں تو اس کی گرفتاری ظاہر کریں جس پر سرکاری وکیل نے کہا تھا کہ وہ بات کرتے ہیں۔

اطہر لاشاری نے کہا کہ ’میری والدہ جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے سامنے بھی پیش ہوئیں اور افسران کے سامنے ہاتھ جوڑے اور دوپٹہ پیروں پر رکھ کر واسطے دیے کہ میرے بیٹے کو زندہ چھوڑ دو چاہے اس پر مقدمہ دائر کر دو، لیکن ان کی نہ سنی گئی اور ہمیں لاش ملی۔‘

2015 میں وفات پا جانے والے قوم پرست رہنما عبدالواحد آریسر کی جماعت جسقم (آریسر) سندھ سے لاپتہ سیاسی کارکنوں کی رہائی کے لیے بھی سرگرم تھی

پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ نے گذشتہ ماہ سندھ کی دو عسکریت پسند تنظیموں سمیت قوم پرست جماعت جیئے سندھ قومی محاذ (جسقم) کے آریسر گروپ کو کالعدم قرار دیا تھا۔

سرکاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا تھا کہ جیئے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ، سندھو دیش ریولوشنری آرمی اور سندھو دیش لبریشن آرمی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے اور یہ تنظیمیں تخریب کاری میں ملوث رہی ہیں۔

کالعدم جیئے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ کے چیئرمین اسلم خیرپوری کا کہنا ہے کہ وہ جی ایم سید کے نظریے کے پیروکار ہیں جس کے تحت ان کی منزل سندھو دیش ہے۔

لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت پرامن جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ جی ایم سید نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے 32 سال جیل اور نظر بندی میں گزار دیے لیکن تشدد کی حمایت نہیں کی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ‘2017 سے ہماری تنظیم کے خلاف ایک غیر اعلانیہ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ان کے کئی کارکن جبری لاپتہ ہوئے اور اس وقت بھی ان کی تعداد 17 کے قریب ہے۔’

کراچی میں گذشتہ ہفتے رینجرز کی موبائل اور چوکی پر دو دستی بم حملے کیے گئے تھے، جس میں ایک اہلکار زخمی ہوا تھا جس کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبوں اور سندھ کے وسائل پر قبضے کے خلاف وہ اپنے حملے جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی کی جانب سے سندھ سے لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی اور نیاز لاشری کی ہلاکت کے خلاف 17 جون کو احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔