نورا : بلوچ کی اعلیٰ اقدار کا محافظ
تحریر: قمبر مالک
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی انسان کی مکمل زندگی کو قلم بند کرنا قریباً ناممکن ہے اور جب اُس انسان کی زندگی ہمہ جہتی ہو اور لکھنے والے کا تعارف صرف اس کی ایک مخصوص پہلو سے ہو تب اُس انسان پر لکھنا اور زیادہ پچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تحریر شہید نور احمد عرف نورا و پیرک کی ہمہ جہتی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں ہے، جسے میں ایک بلوچ اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے نظرانداز نہیں کر سکتا- یہ تحریر پڑھنے والوں کی خدمت میں اس مقصد سے لا رہا ہوں کہ نورا کی غیر معمولی زندگی سے پڑھنے والے اور میں جدوجہد کی عظمت پہچان لیں اور اس عظمت کو اپنی زندگی کے پیکر میں اتارلیں- خاص طور پر بلوچ طالب علم اور سیاست کی ابتدائی مرحلہ کے قوم دوست، تاکہ ان میں بلوچ سماج کے مثبت کرداروں کے بارے میں مزید جاننے اور انکی زندگی اور پیغام سے فائدہ اٹھانے کی خواہش پیدا ہو جو انہیں سماج اور قومی تحریک کا گہرا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں- اور انہیں بلوچ سماج اور قومی تحریک کو فائدہ پہنچانے میں اپنے کردار کے تعین میں مدد ملے-
یہ تحریر وسیع اور جامع ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی لہٰذا شہید نورا کی زندگی کے چند واقعات کے تناظر میں اس تجزیئے کی ردی یا قبولیت پڑھنے والے کی صوابدید پر ہے-
جس ماحول میں نورا نے تربیت پائی تھی اس نے انکی شخصیت کی جو تشکیل کی تھی، وہ ایک کروٹ بیٹھنے والا نہیں تھا- اپنی سماجی و ثقافتی اقدار کے حوالے سے حساس نورا نے اپنے دور کے کئی نوجوان طالب علموں کی طرح بی ایس او آزاد کے فورم سے بلوچ کی سماجی اور ثقافتی اقدار میں قابل اعتراض بیرونی مداخلت کی پر زور مخالفت کی- وہ بلوچ اور بلوچستان کے مستقبل کے فیصلوں کو بلوچ کی مرضی کے مطابق تشکیل دینے کے حق میں ہمہ وقت بولتے تھے۔ اس حوالے سے پرامن سیاسی آگاہی پھیلانے کو ہر بلوچ نوجوان کی ذمّہ داری سمجھتے تھے اور اس مہم میں اپنا حصّہ پوری دیانت اور ایمانداری سے دیتے تھے- بی ایس او کے دیگر سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی طرح مذہبی ریاست پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے نورا کو لیکر رعایت نہیں برتی- ٹارچر اور دھونس دھمکیوں سے اسکے ضمیر و شعور کو مرعوب کرنے کی کوشش کی تاکہ نورا کو بلوچ قوم پرست بیانئے کے خلاف استعمال کیا جاسکے جس نے نورا کی باقی ماندہ زندگی کے فیصلوں پر گہرے اثرات چھوڑے-
تکالیف اور مصائب سے ابھرنے والی قوتوں سے لیس نورا نے ریاستی آلہ کار بننے کی بجائے اپنی اور اپنی قومی حرمت کی تحفظ کا رستہ چُن لیا۔ جب ان کے لیئے پرامن سیاست ناگوار ہوگیا تب اُنھوں نے بندوق اٹھایا اور آخری سانس تک مخلصی اور مستقل مزاجی کے ساتھ بلوچ و بلوچستان کی حفاظت کرتا رہا-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔