نواب مری: سچ کی آتما – منظور بلوچ

883

نواب مری: سچ کی آتما

 تحریر : منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان بلاشبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مختلف النوع مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہوتا جا رہا ہے اس کی ایک وجہ ”بلوچستان“ بھی ہے، کیونکہ ایک تو بلوچستان سونے کی چڑیا، اس پر مستزاد اس کا محل وقوع،اسٹریجک حوالے سے گوادر،یہ سب کافی سے بھی زیادہ ہے۔

بلوچستان میں بلوچ کا وجود اور سچ بہت تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں،ایسے میں فقط چند سچائی کی دیوی کے پرستار ہیں،جو دنیا میں سب سے قیمتی شے یعنی زندگی کی قیمت پر بلوچ کے وجود اور سچ کی شمع جلانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اگر سچائی کے ان متوالوں کو،جنھوں نے زندگی کو اپنی خاک سے جوڑا ہے،اگر ان کو منفی کر دیا جائے تو باقی بلوچستان میں ہمیں جھوٹ کے بیوپار ملیں گے،چمچہ گری کو پیشہ بنانے والے ملیں گے،جو اپنے گھر کو اجاڑنے والے ڈاکوؤں کیلئے بھی نغمہ سرا ہیں،سیاست کے مقدس نام پر مداری ملیں گے،جو اپنی لمبی ٹوپی سے کبوتر بھی نکال سکتے ہیں اور وقت آنے پر کبوتر کو اڑا بھی سکتے ہیں،اب بلوچستان میں سیاست دان کیلئے خوردبین کی ضرورت ہے اس لئے اب ہمارے دیس میں سیاست نہیں ٹھیکے داری ہے،حیرانگی ہوتی ہے ان نوجوانوں پر جو چرب زبان اور سیاسی طوطوں کو لیڈر سمجھتے ہیں،اب گیان،دھیان کچھ بھی نہیں،رٹا فکیشن ہے۔

کوئی سیاسی اعداد و شمار کا رٹا لگانے کا ماہر ہے تو کوئی بیوروکریسی کی عمارت میں داخل ہونے کیلئے اپنی پوری زندگی کو رٹہ لگانے کا فریضہ سونپ چکا ہے،جو سچے سیدھے،شاز و نادر سیاسی ورکر ہیں ان کا انجام منظور بلوچ کی المناک موت سے ہو تاہے۔
کیا سبب ہے کہ بی ایس او کے سابق چیئرمین منظور بلوچ ساری زندگی سیاست کرتے رہے لیکن کسمپرسی کے عالم میں اس دنیا سے چلے گئے،جب وہ چئیرمین تھے،ان کے مقابلے میں وہ ٹھیکہ دارسیاست دان جو شاید اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے اب ارب پتی،کھرب پتی بن چکے ہیں۔

سیاست کے سینے ہی میں تو ”دل“ ہوتا ہے،لیکن ہمارے ہاں یقینا بہت سی سچائیوں کے ساتھ یہ مقولہ بھی مشکوک ٹھہرے گا،کچھ ڈگری یافتہ لوگ اس حسرت میں گھلے جا رہے ہیں کہ ان کو ان کی خدمات پر اب تک بلوچ قوم کے نمائندہ دانش ور کا خطاب کیوں نہیں ملا ہے،اس ایک خطاب کیلئے کبھی سرخ،کبھی پیلا،کبھی نیلا یعنی رنگ رنگ کے رنگ بھی استعما ل کرتے ہیں،اس ایک لقب کیلئے وہ کبھی حاکموں کے در پہ سجدہ ریز ہوتے ہیں کبھی وہ بلوچ عوام کے سب سے بڑے خیر خواہ بننے کی کوشش کرتے ہیں،اس کوشش میں انہوں نے بلوچ قوم پر اپنی نام نہاد کتابوں کا بوجھ بھی ڈال رکھا ہے اور وہ دن ان کیلئے کتنا درد ناک اور المناک ہوگا جب وہ اس بوجھ کے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گے۔

یہ خود ساختہ سرخ،یہ قلم فروش آج بھی بلوچ نیشنلزم کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں،سچے مارکسسٹ اور مارکسزم کو سمجھنے والے ہمارے لیے آج بھی اثاثہ ہیں،ہم ان کا احترام کرتے ہیں، اور ان کے قلم کو قومی وجود کی جدوجہد اور انسانوں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کی ناانصافی اور زیادتی کے خلاف عمل پیرا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، چند قلم فروش بھی صرف حکمرانوں کے دسترخوانوں کی چھوڑی جانے والی ہڈیوں کیلئے لڑ کر اپنی عاقبت بھی خراب کر رہے ہیں حاکموں کا کام ہی تو ہڈی پھینکنا ہوتا ہے ایک ہڈی کیلئے بردار کشوں نے کشتوں کے پشتے لگا دیئے ہیں،لیکن یہ بیچارے ایک چھوٹی سی بات جاننے سے قاصر ہیں کہ وقت اور تاریخ کبھی کسی کے نہیں ہوتے یہ کسی کی من مانیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔

ہماری اخلاقیات کا جنازہ ایک کورونا وائرس نے نکال دیا ہے،حرص و ہوس کی اس منڈی میں کورونا جو موت کی علامت ہے اس کا کاروبار آج بھی جاری ہے،لیکن کورونا،وقت اور تاریخ کی طرح اپنے آپ میں نہ صرف ظالم بھی ہے بلکہ انتہا درجے کا غیر جانبدار۔(کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ انسان ترقی کے نام پر پاور،دولت کے نام پر اس کرہ ارض پر حکومت کرنے کا جو خواب دیکھ رہا ہے آج اس کی اپنی ہوس نے کرہ ارض کے مستقبل کو بھی تاریک بنا دیا ہے۔

یہ ہے آج کا بلوچستان ، جسے ہم مابعد نوب مری بھی کہہ سکتے ہیں،بلوچستان کی قاتل سڑکیں سالانہ آٹھ ہزار خاندانوں کو نگل رہی ہیں،بارہ ہزار افراد (جن میں سے بیشتر نوجوان ہیں) کینسر کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں،باقی جو اموات ہوتی ہیں جنکی رپورٹ تک نہیں ہوتی ہے،وہ الگ سے ہیں،قبائلی جنگوں کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کا قتل،یا بلوچستان میں دو عشروں سے جاری خاک اور خون کے کھیل کا معاملہ بھی اپنی جگہ جاری ہے،ایسے میں کچھ قلم فروشوں کی کوشش ہے کہ وہ بلوچ نوجوانوں کو کنفیوژن کا شکار بنا دیں، بلوچ مسئلہ آج کا نہیں ہے،جوں جوں یہ جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے سیاست کے اسٹیج پر بہروپیوں کا میک اپ اڑتا جا رہا ہے۔
بقول انور ساجدی کہ اب بلوچ مسئلہ سیاسی سے زیادہ قومی وجود کی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے وہ سیاسی پارٹیوں کو این جی اوز کا نام دیتے ہیں،ان ”این جی اوز“ (جنکی شکلیں مختلف ہیں) کے کرتا دھرتا ہر ایک مسئلہ کو اپنی عینک رضا کارانہ طور پر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،براہوئی زبان کی ایک ضرب المثل کے مطابق ”ہراڑے دسپیرتیے اموڑے ارے“ یعنی جہاں ان کی تخم ریزی نہیں ہوتی ہے وہاں بھی یہ پائے جاتے ہیں۔سرخ،نیلے،پیلے،ہرے،سبز،قسم کی این جی اوز نے آج کل (ہمیشہ کی طرح) بلوچستان کی قیادت کا معاملہ بھی خود طے کرتے چلے آ رہے ہیں۔

ہم ان تما م سیاسی زعماء کرام کے مشکور وممنون ہیں جھنوں نے بلوچوں کو سیاسی تنظیم کاری کی جانب رغبت دلائی،جن میں سر فہرست عبدالعزیز کرد ہیں،اس کے بعد یوسف عزیزمگسی،گل خان نصیر،میر غوث بخش بزنجو،عبدالرحیم خواجہ خیل اور نہ جانے کتنے بے شمار گمنام سیاسی جہد کار شامل ہیں،بلوچستان میں موجودہ سیاست کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ایکسپوز ہو چکے ہیں۔

آج یہ سارے یوں تو ایک دوسرے کے خلاف بھی برسرپیکار ہیں لیکن ایک چیز پر یہ سب متفق ہیں کہ وہ سارے سچائی کی دیوی کے پروانے جو سچ کی خاطر اپنی جانیں دے رہے ہیں ان کو ”مہم جو“ ٹھہرایا جائے اور اس مقصد کیلئے کبھی وہ یوسف عزیز مگسی کا سہارا لیتے ہیں کبھی میر بزنجو کے سیاسی اعمال کے پیچھے چھپ کر وار کرتے ہیں۔ان کا تازہ حملہ بلوچ نوجوانوں پر یہ ہے کہ بلوچستان میں دو اسکول آف تھاٹ ہیں ایک نواب خیر بخش مری (جنکی جدوجہد کو وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں مہم جوئی،فاشزم،نسل پرستی کا نام دیتے ہیں) ان کے نزدیک دوسرا اسکول آف تھاٹ میر بزنجو کا ہے ان کی فلسفے کی بات بھی کی جاتی ہے ،ان کا فلسفہ کیا تھا،یہ بھی مجھ جیسے مطلق جاہل کو آج تک پتہ نہیں چل سکا،حالانکہ یہ دو اسکول آف تھاٹ نہیں بلکہ ایک کانٹوں کا ہا ر دوسرا پھولوں کی سیج ہے،ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یوسف عزیز مگسی،عبدالعزیز کرد،سردار عطاء اللہ مینگل،گل خان نصیر و دیگر کا اسکول آف تھاٹ کہاں گیا؟

کیا سیاست کے بلوچستان میں صرف دو روپ ہیں مسئلہ یہ نہیں کہ بلوچ کی قیادت کا حق دار کون ہے اس کا فیصلہ تو وقت اور تاریخ کرے گا۔یہ این جی اوز ٹائپ سرکاری منشیوں کا اول تو کام ہی نہیں ہے۔
جس قومی بقاء کی جدوجہد کو آجکل مہم جوئی کا نام دیا جا رہا ہے۔یہ رنگوں والے دانش ور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی ابتداء تو میر بزنجو کے اپنے اس بیان سے ہوتی ہے جو انہوں نے گیارہ اگست 1947 کو بلوچستان کی آزادی کے اعلان کے بعد الحاق کے مسئلے پر قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے دیا تھا،جس میں پاکستان سے الحاق کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام انہوں نے ان الفاظ پر کیا تھا۔
کہ اگر بزور بازو الحاق ہوتا ہے تو بلوچ عوام سروں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے۔

بلوچستان کی سیاسی تاریخ (سیاسی جماعت کے قیام کے تناظر میں) تو تقریبا نوے سال پر محیط ہے۔اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آج کی سیاست کرنے والے سردار سے لے کر لیڈرصاحبان،ان کی جماعتیں تو پیداوار ہی اسی ”مہم جو ئی“ کی ہیں۔لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں۔

یہاں میں افراسیاب خٹک کے ایک مضمون کے کچھ حوالے دینا چاہوں گا جو انہوں نے نواب مری سے متعلق لکھا تھا۔
اس مضمون کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نیا پاکستان کاشوشہ سب سے پہلے ذولفقار علی بھٹو نے چھوڑا تھا۔جس کے آجکل مالک عمران خان بنے ہوئے ہیں
افراسیاب خٹک لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھٹو نے نیپ کے قائدین کو حکومت بنانے کی پیش کش کی۔ستر کے انتخابات میں نیپ نے بلوچستان اور خیبر پختوننخواہ میں اکثریت حاصل کر لی تھی اس پر پارٹی کے سربراء خان ولی خان نے پارٹی کا ایک اہم اجلاس گرینز ہوٹل پشاور میں منعقد کیا تاکہ تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
نواب خیر بخش مری،میر غوث بخش بزنجو اور عطا ء اللہ مینگل کے ہمراہ اس اجلاس میں آئے۔

وہ آگے لکھتے ہیں کہ جنوری 1972 میں پشاور میں منعقدہ اس اجلاس میں پشتونوں کے اکثر مقریرین نے بھٹو کی جانب سے پیش کش کو سراہا اور کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے کیلئے تیار ہیں۔اس موقع پر نواب مری نے یہ سوال اٹھایا کہ ”کیا یہ نئی ریاست پرانے استحصالی نظام کے ساتھ چمٹی ہوئی نہیں ہے؟ انہوں کہا کہ پرانی بوتل میں نئی شراب ڈال کر وہ ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو دوستی کا ہاتھ ہماری طرف بڑھایا جا رہا ہے ، کیا یہ بنگالیوں کے خون میں ڈوبا ہوا نہیں ہے، بنگالیوں کا قتل عام اتنا تازہ ہے کہ کیا ہم اسے بھول جائیں۔انہوں نے کہا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دوستی کیلئے بڑھنے والا یہ ہاتھ کل بلوچوں اور پشتونوں کے خون سے رنگین نہیں ہو گا۔انہوں نے تجویز دیا کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے قومی حقوق کا مطالبہ کرنا چاہیے اس سے قبل کہ ہم حکومت کا حصہ بنیں۔

اسی مضمون میں آگے چل کر افراسیاب خٹک نے حیدر آباد سازش کیس کے دوران ان کے عدالتی بیان کو بھی پیش کیا جو تاریخ ساز ہے،بعد ازاں جب ضیاء نے بھٹو کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تو انہوں نے جیل میں نیپ کے قائدین سے باری باری ملاقاتیں کیں،انہوں نے ولی خان،میر بزنجو،عطاء اللہ مینگل اور نواب مری کو ملاقات کی دعوت دی،جیل سپرینڈنٹ کے دفتر میں اس ملاقات میں انہوں نے مزکورہ اکابرین سے ایک ایک کرکے ملاقاتیں کیں۔انہوں نے ولی خان،میر بزنجو اور عطاء اللہ مینگل سے نصف نصف گھنٹہ ملاقات کی،اور انہوں باور کرایا کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب بھٹو نے کیا ، لیکن وہ(ضیاء الحق) اب اس پالیسی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیپ کے اکابرین ایک جمہوری اسلامی پاکستان کے حوالے سے اپنا قومی کردار ادا کریں گے۔
افراسیاب خٹک لکھتے ہیں کہ انہوں نے (ضیاء الحق) یہ ساری باتیں نواب مری سے نہیں کیں۔نواب مری جب ان سے ملنے گئے تو ان کی قمیض کے بازو پر لینن کا بیچ لگا ہوا تھا۔ضیاء کے ساتھ ان کی ملاقات صرف دو تین منٹ رہی۔جس میں ضیاء نے صرف ان سے ان کی خیریت دریافت کی، وہ لوگ جو نیپ کے حوالے سے،نیپ حکومت میں شمولیت کے حوالے سے نواب مری پر الزام عائد کرتے ہیں۔ان کیلئے یہ صرف چند واقعات ہیں جو نواب مری کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔
گرینز ہوٹل پشاور میں نواب مری کی تقریر کے بعد ان نام نہاد دانش وروں پر سب کچھ واضح ہونا چاہیے اگر ان کا کوئی یا ان پر کوئی حاکمانہ ایجنڈا مسلط نہیں۔

پشاور میں نواب مری کی یہ پیش بینی آج روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے،بنگال میں جن خون آلود ہاتھوں نے نیپ کے اکابرین کو جو پیش کش کی تھی وہ ہاتھ اب بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔
اس کے باوجود سیاسی بددیانتی کے طور پر میر بزنجو کو ان تمام معاملات سے الگ رکھنا قرین انصاف نہیں ہے،یہ باتیں نواب مری نے اس وقت کیں جب نیپ کی حکومت بنی بھی نہیں تھی،پھر جو لوگ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ نیپ کے سارے معاملات سردار عطاء اللہ مینگل نے خراب کیے اور میر بزنجو کی کوششیں ناکام ہوئیں وہ اس سارے سیاسی منظر نامے کا تجزیہ از خود کر سکتے ہیں۔
عدالت میں بشمول میر بزنجو اور دیگر اکابرین کے بیانات کا مطالعہ کیا جائے اور نواب مری کے بیان کا جائزہ لیا جائے تب بھی حقیقت واضح ہوتی ہے۔

یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضیاء الحق، ولی خان،میر بزنجو،عطاء اللہ مینگل سے کھل کر ملاقات کرتے ہیں،انہیں اپنی حکومتی پالیسی بتاتے ہیں اور اس میں ان کو شمولیت کی پیش کش کرتے ہیں۔مانا کہ اس وقت یہ اکابرین قیدی کی حیثیت سے ایک ڈکٹیٹر سے ملے لیکن اسی ڈکٹیٹر کو یہ جرات کیونکر نہ ہو سکی کہ وہ یہی باتیں نواب مری کے ساتھ کر تے۔
نواب مری ابتداء ہی سے اپنی سوچ کے حوالے سے واضح تھے۔افراسیاب خٹک یہ بھی لکھتے ہیں کہ جیل کے دنوں میں سٹڈی سرکلز کا مرکز نواب مری ہوا کرتے تھے۔اور کتابوں کے مطالعہ نے وقت کے ساتھ ساتھ نواب مری کے سیاسی افکار و خیالات میں مزید وسعت اور گہرائی پیدا کی۔نواب مری بائیں بازو کے حامی تھے۔لیکن ایسے مارکسسٹ نہیں جو ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ این جی اوز نما دانش ور مارکسسٹ ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان کی توپوں کا رخ بھی نواب مری کی جانب ہی ہوتا ہے۔اس کی وجہ صاف ہے۔نواب مری کا راستہ کانٹوں کا ہار ہے کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔

جہاں تک بات ہے سچ کی، سچ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہوتا ہی ہے ننگا، اسے آپ ماریں،گالیاں دیں،اس کی کردار کشی کریں،اس کے خلاف جھوٹ کے ہزاروں قلعے اور پل بنائیں۔لیکن جھوٹ کے جس طرح پاؤں نہیں ہوتے،اسی طرح اس کی عمر بھی نہیں ہوتی۔
بعض اوقات سچائی کو ثابت کرنے کیلئے صدیاں بھی لگ جاتی ہیں لیکن سچ ننگا ہونے کے باوجود اتنی سخت جان ہے کہ یہ کبھی نہیں مرتا۔
جو لوگ آج مہم جوئی اور فاشزم کو نواب مری کے ساتھ منسوب کرکے اپنا اصل چہرہ ظاہر کر رہے ہیں۔تو ان کو چاہیے کہ وہ علم و دانش کو ختم کر دیں۔دنیا کی ساری کتابوں کو جلا دیں کیونکہ یہ علم ہی ہے،کتاب ہی ہے جو سب سے پہلے آپ کو سوال اور بغاوت کا درس دیتا ہے۔

سقراط کے ساتھ کیا ہوا؟ سقراط اور اس سے قبل وہ سارے سچ کے پرستار جنکے نام بھی ہم نہیں جانتے،اور آج تک جبکہ سقراط کو صدیاں بیت چکی ہیں اس کے باوجود بھی سقراط زندہ ہے ننگے سچ کی طرح،سچ تو یہ ہے سب سے زیادہ بغاوت کا درس تو کتابوں نے ہی دیا۔پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے کلیسا کی اجارہ داری کو ختم کیا،سچائی کی تلاش و جستجو نے علم کو جنم دیا،علم نے سوال کو جنم دیا اور سوال بھی سچ کی طرح بڑا سخت اور کڑوا ہوتا ہے،جو لوگ اشخاص یا فرد سوال سے ڈرتے ہیں تو جان لینا چاہیے کہ وہ جھوٹ کی زلفوں کے اسیر ہیں۔

ایک مضمون میں تمام باتوں کا احاطہ ممکن نہیں لیکن ایک اخبار نویس کی حیثیت سے راقم کو نواب مری سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔1993 میں جب راقم نے ”پاکستان“ اخبار لاہور سے رپورٹنگ کا سلسلہ شروع کیا تو نواب مری سے ملنے،ان کے خیالات سننے کا موقع ملا۔ان کی یہ بات کبھی نہیں بھولتا کہ انسان ابھی تک انسانیت کے شرف تک نہیں پہنچا کہ ظلم اور استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔
راقم نے ان میں ایک صوفی منش شخصیت کو دیکھا جو شہرت،ناموری جیسے امراض کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
نوروز خان کی گرفتاری سے لے کر بنگا لیوں کے قتل عام اور نیپ کے کالعدم ہونے کے اس سارے تجربے نے ان کو پاکستانی روایتی سیاست سے دور کر دیا،جو لوگ نواب مری پر فاشزم کا بہتان لگاتے ہیں یا تووہ انتہائی جاہل مطلق ہیں۔یا پھر ان کا کوئی پوشیدہ ایجنڈہ ہے۔
لیکن کیا کیجئے کہ نواب مری کا قد اتنا بڑا ہے کہ ان کے سامنے دیگر سیاسی قائدین کے قد چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ہر آنے والا دن نواب مری کے افکار کو روشن کرتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر قوم پرستی کے دعویدار سیاسی اکابرین کے افکار پیاز کے چھلکے ثابت ہو تے جا رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

SHARE
Previous articleاحتجاجی مظاہرے اور خوفزدہ قوتیں – نادر بلوچ
Next articleآن لائن کلاسز کیلئے انٹرنیٹ اور بجلی دی جائے – کراچی مظاہرین
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔