مشترکہ مسائل پر منتشر کیوں؟ ۔ اشرف بلوچ

625

مشترکہ مسائل پر منتشر کیوں؟

تحریر: اشرف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کرونا وائرس کی وبا کے باعث کرہ ارض پر شاید ہی کوئی قوم یا فرد ہو جس سے اس کی زندگی متاثر نا ہوئی ہو اور اس میں کوئی شک نہیں جب معاشرے آفات کی زد میں آتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کا متاثر ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ہاں البتہ ان آفات سے نمٹنے کیلئے یا نقصان کو کم کرنے کیلئے احتیاط و دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔

اس روئے زمین پر بلوچستان شاید ہی وہ واحد خطہ ہے جو ہمیشہ قدرتی و مصنوعی آفات کی زد میں رہا ہے۔ قدرت کی طرف سے جو آفات آنے ہیں وہ تو آئیں گے اور ان سے نمٹنے کیلئے انسان کیا کرسکتا ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ فلحال ہم جن مصنوعی آفات کی زد میں ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے ہمیں کس طرح کی لائحہ عمل اختیار کرنی چاہیئے؟ اس پہ زرا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی آفات سے مراد وہ مسائل جو جان بوجھ کر ہمارے اوپر مسلط کردئے گئے ہیں اور جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بانجھ پن کا شکار بنتا جارہا ہے۔

بلوچستان کے چپے چپے سے لائق و قابل فہم لوگ جبری گمشدگی کا شکار ہوکر صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، ایک کثیر تعداد میں ہمیں ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں اور کئی شخصیات ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوکر ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ لاقانونیت و منشیات کو ہم پر مسلط کرکے ہماری نسلوں کو ذہنی معذور بنایا جارہا ہے۔ مختلف طرح کے انتظامی مسائل پیدا کرکے دانستہ طور پر طلباء کو تعلیم سے دور کرنے کی کوششں کی جارہی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل، بی ایم سی کا مسئلہ اور موجودہ آن لائن کلاسسز کے مسائل واضح مثالیں ہیں۔

لیکن بدقسمتی کہیں یا خود غرضی، ابھی تک ہم نے ان مسائل کے تدارک کیلئے کوئی جامع اجتماعی حکمت عملی نہیں اپنائی۔ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ہمارے طلباء تنظیمیں و سیاسی جماعتوں نے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے خود کی سیاسی دکانداری کو چمکانے میں عافیت جانی اور یہی صورتحال بی ایم سی بحالی تحریک کا بھی ہے۔ اور اندرون بلوچستان کا جو تعلیمی صورتحال ہے وہ کسی کی خاص پرائیوریٹی میں نظر نہیں آتا۔

موجودہ آن لائن کلاسسز کے ایشو میں بھی ہم ماضی کے اقدامات کو دھرارہے ہیں حالانکہ یہ مسلہ صرف کسی ایک فرد یا تنظیم کا نہیں بلکہ سب کا مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر وقت کی نزاکت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم وہی پرانی و رویتی طرز عمل پر پیرا ہیں۔ آخر وہ کونسا مسئلہ ہے جس سے ہم ایک ساتھ کام کرنے میں تیار نہیں ہیں اور وہ دوری کا باعث بن رہی ہے؟ سیاسی اختلافات ہر کسی کے ہوسکتے ہیں لیکن وہ مسائل جس سے سب متاثر ہورہے ہیں تو پھر کیوں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ان مظالم و ناانصافیوں کا ملکر مقابلہ نہیں کرتے؟

ہمیں پتا ہے یہاں پر دودھ کا دھلا ہوا کوئی نہیں ہے۔ ماضی میں سبھی سے سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں اور انھی غلطیوں کی وجہ سے ہم آج اس نہج پر ہیں۔ لیکن اب بھی وقت ہے کہ قومی مفاد کی خاطر نقطہ چینی و کریڈٹ کی سیاست کوچھوڑ کر نیک نیتی سےآگے بڑھ کر اپنے دکھوں کا مداوا کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ روایت یوں ہی برقرار رہی تو کوئی بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا اور ہم جس گراوٹ کا شکار ہیں وہ یوں ہی برقرار رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔