مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ – احمد علی کورار

224

مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

ان دنوں تاریخ کے متعلق کچھ کتب زیر مطالعہ ہیں، بڑی تگ ودو کے بعد تاریخ کے حوالے سے Authentic sourcesملے ہیں۔ ویسے تو تاریخ کے متعلق کتابوں کا انبار ہے لیکن صحیح معنوں میں لکھی گئی تاریخ کی چند ایک کتابیں درست تعین کا پتہ دیتی ہیں۔

ہمارے ہاں تو عرصے سے تاریخ کو رٹے رٹائے انداز میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ ابھی تک ہمارے اذہان میں گول میز کانفرنس ماسوائے گول میز کے کچھ بھی نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ کو Math کے ٹیبل کی طرح پڑھایا جاتا ہے۔ جسے ہم وقتی طور پر ازبر کر لیتے ہیں، تاریخ کی اصل essence کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں۔ یہ سلسلہ بڑے عرصے پر محیط ہے ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔

تاسف یہ ہے کہ ہم آج تک صحیح معنوں میں مطالعہ پاکستان بھی نہیں پڑھ سکے، وہی نہرورپورٹ اور قائداعظم کے چودہ نکات رٹے ہوئے ہیں، لیکن بہت کم طلبا جانتے ہیں حقیقت میں یہ نکات ہیں کیا؟

جب ہم اپنی ہی تاریخ صحیح معنوں میں نہیں پڑھ سکتے ہیں تو دیگر اقوام کی تاریخ تو پھر ہنوز دلی دور است والی بات ہے۔

خیر اس پر پھر کبھی بات ہوگی آج میرا موضوع بحث تاریخ نہیں ہے، یہ میں باتوں باتوں میں کہاں نکل گیا۔ لیکن تاریخ سے یاد آیا حال ہی میں جون کے ابتدائی ہفتے میں امریکا جو پہلے ہی وبا کی لپیٹ میں ہے اب مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا۔

وبا کے موسم میں امریکہ میں جارج فلائیڈ کے پولیس اہل کار کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے خلاف وسیع پیمانے پر پرتشدد مظاہروں نے تاریخ رقم کر دی۔ کسی سیاہ فام کے قتل کو لے کر اتنی تیزی سے پھیلے اس نوعیت کے مظاہرے امریکا کی تاریخ میں شاید پہلی بار پھوٹے ہوں۔

ابتدا میں مظاہرے اِتنے شدید تھے کہ پولیس کے لیے اُنہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا اور نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑا۔ نیشنل گارڈز ہمارے مُلک کے رینجرز کی طرح ہیں، جو قانون نافذ کرنے میں پولیس کی مدد کرتے ہیں۔ مظاہرہ کرنے والے سیاہ فاموں کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے برسوں سے وہ اس تفریق کی وجہ سے ظلم وبربریت کا شکار ہیں، وہ مزید اس کرب کو جھیل نہیں سکتے۔

ان مظاہروں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ بلا امتیاز رنگ ونسل نسلی امتیاز کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر لکھا ” آئی کانٹ بریتھ ” یہ وہی الفاظ ہیں جو جارج فلائیڈ بار بار اس پولیس اہلکار کو کہہ رہا تھا، جس نے گھٹنے سے اس کی گردن دبا رکھی تھی، جس سے اسے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی نتیجتاً فلائیڈ جان کی بازی ہارگئے، یہ الفاظ حقیقی معنوں میں اس گھٹن زدہ امریکی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جس نے سیاہ فاموں کا جینا محال کر دیا ہے۔

اس حقیقت سے مفر نہیں یہ لڑائی صدیوں پر محیط ہے۔ یہی آواز اپنے اپنے وقت میں روزا پارک، مارٹن لوتھر کنگ، میلکم ایکس اور لا تعداد دوسرے سیاہ فام مردوں اور عورتوں نے بھی اُٹھایا۔ لیکن جارج فلا ئیڈ کی موت پر پوری دنیا سے، جس غم و غصے اور ایکتا کا اظہار کیا گیا ہے، اس کی مثال پوری سیاہ فام جدوجہد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جارج نے اپنا جو دکھ اپنی ماں کو ایک پولیس آفیسر کے گھٹنے کے نیچے اپنا سانس ٹوٹتے ہوئے بیان کیا تھا، وہ لاک ڈاؤن کے موسم میں کروڑوں دلوں کو چھو گیا۔

حیران کن بات یہ ہے یہ احتجاج کسی جماعت، کسی لیڈر ،کسی بڑے نام والے کی کال سے شروع نہیں ہوئے یہ تو ہمدرد اور احساس رکھنے والوں کا ایک سیلابی ریلہ تھا جو جارج کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف پوری دنیا میں پھیلتا گیا۔

امریکا کے معروف سماجی رہنما اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار، مارٹن لوتھر کنگ نے اپنے قتل سے قبل واشنگٹن میں ایک عظیم الشّان ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا “میرے دوستو! آج مَیں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمام مشکلات تر کے باوجود میرا ایک خواب ہے، جو درحقیقت امریکی خواب میں پنہاں ہے۔ میرا خواب ہے کہ ایک دن یہ قوم اس مقصد کے لیے کھڑی ہو، جس کے لیے یہ بنی۔ یہ سچائی سب جان لیں کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں۔ میرا یہ خواب ہے کہ ایک دن سابق غلاموں کی اولاد اور اُن کے سابق آقاوں کی اولاد ایک ہی میز پر بیٹھے اور وہ بھائی چارے کی میز ہو۔‘‘

حالیہ جارج کے بیہمانہ قتل کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ کا خواب ابھی ادھورا ہے۔ لیکن آج کی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے بقول محترمہ شہناز شورو جو بات صدیوں میں نہ سمجھائی جا سکی، اسے جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل نے سمجھا دیا۔ پوری دنیا کا نصاب جھوٹ پڑھاتا ہے کہ “کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔” جبکہ اس نصاب میں امریکہ کے اصل باشندوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ جھوٹ پر مبنی اس تاریخ میں امریکہ کی تاریخ کا آغاز یورپی اقوام کی جارحیت کو تہذیب کا نام دینے سے ہوتا ہے۔ امریکہ میں جا بجا کولمبس کے مجسمے نصب تھے۔۔۔۔ تین مجسمے زمین بوس ہو گئے۔ باقی بھی ہو جائیں گے۔ یہ ہوتا ہے انجام جھوٹی تاریخ کا۔

میرا یقین ہے کہ دنیا بھر میں عوام کا غیض و غضب ظالم جابر اور بے رحم بدمعاشیہ کے مکر و فریب کا پردہ چاک کرکے رہے گا۔ حقدار کو اس کا حق مل کر رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔