قوتِ اندوہ
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارے اوپر پیر رکھ کر گولی چلانے والے کیا سمجھتے ہیں کہ بلوچ کیا ہے؟ انسان یا کیڑے مکوڑے؟ جب بھی، جسے بھی چاہو پیروں کے نیچے کچل دو، کوئی روکنے والا نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ بے یارومدد گار انبوہ محض آپکے صوابدید پر زندہ رہ سکتی ہے؟
ننھی بچی برمش جب صحت یاب ہوگی تو امی امی کرتی رہیگی، سوال کریگی کہ اسکی امی کیوں نہیں آرہی ہے؟ کیا اسے کوئی سمجھائے گا کہ اسکی ماں مئی کی ایک گرم رات ڈاکے میں نہیں ماری گئی، بلکہ اسکی موت کا فیصلہ بہتر سال پہلے ایک ڈاکے میں ہوچکا تھا جو اسکے وطن پر غیرملکیوں نے ڈالا تھا، جس کے تسلسل کا شکار آج اسکی امی ہوئی۔ لیکن کوئی اسے سمجھائے گا نہیں کیونکہ اب تک سب لائن میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، سب اپنی اپنی برمش کے زخمی ہونے تک چپ رہیں گے۔
ڈنک حملے سے پہلے ڈنک والے بھی ضرور یہ سوچتے تھے کہ فوج جانے، بلوچ جانیں اور نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ جانیں، لیکن آج انکی باری آگئی اور اسی طرح ایک ایک کرکے سب کی باری آنی ہے، تا وقتیکہ اس زمین سے اور حافظوں سے بلوچ اور بلوچستان کا نام مٹ جائے۔
یہ چوروں، ڈاکوؤں، منشیات فروشوں، ہمارے سماج کے گندے انڈوں، جنہیں پاکستان کے فوج نے یکجا کرکے انکے ہاتھ میں اپنا بندوق اور جھنڈا تھمایا ہوا اور جنہیں ڈیتھ اسکواڈ کا نام دیا گیا ہے، صرف انکے کردار اور ان پر ہی غور کیا جائے تو ہمارے اور دشمن کے بیچ فرق صاف نظر آجائے گا۔ وہ تمام عناصر جنہیں قوم اپنا دشمن گردانتی ہے، وہ پاکستانی فوج کے سب سے وفادار پالتو ہیں۔ بس اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان اور بلوچ کا رشتہ کیا ہے۔
یہ سوال کیوں پوچھا نہیں جارہا اور اس سوال پر غور کیوں نہیں کیا جاتا کہ ہمارے سماج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ احسان و شہداد آزادی کا بندوق کیوں اٹھاتے ہیں، اور جرائم پیشہ سمیر سبزل سرکاری بندوق کیوں پاکستان کا جھنڈہ پینٹ کرکے لہراتے نظر آتے ہیں؟ یہاں تعلیم یافتہ طبقہ کیوں غائب کیا جاتا ہے اور جرائم پشہ طبقے کو کیوں فوجی پروٹوکول و سرپرستی حاصل ہے؟ جواب سادہ ہے ایک نے برمش کی ماں کی حفاظت کیلئے بندوق اٹھایا ہوا ہے اور دوسرے نے بندوق اسے قتل کرنے کیلئے۔ اب احتجاج ضرور کیا جائے لیکن یہ بھی سوچا جائے کہ اس ہاتھ کے خلاف احتجاج نہیں ہو جس میں بندوق ہے، بلکہ قاتل کو بندوق تھمانے والے اور اسکی سرپرستی کرنے والے کے خلاف احتجاج ہو اور صرف احتجاج نہیں ہو بلکہ اس ہاتھ کو بھی مضبوط کیا جائے، جنہوں نے بلوچستان کے برمشوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔
اس سچائی سے کم از کم ابھی کوئی سمجھدار بلوچ منہ موڑ نہیں سکتا کہ ہماری مادروطن کی اہمیت و افادیت، ساحل و وسائل ہمارے لیئے دن بدن جان لیوا ثابت ہوتے جارہے ہیں، ہمیشہ قابض افواج کی سرپرستی میں وطن و قوم فروشاں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، انکی سرگرمیاں اس بات کی عندیہ دے رہے ہیں کہ فوج کی سرپرستی میں وہ جو دل چاہے کرسکتے ہیں۔
ہمارے دشمن نے یہی حربہ بنگالی نسل کشی کیلئے جماعت اسلامی کی شکل میں سنہ 70 میں استعمال کیا اور اپنا وہی حربہ اسی تندہی کے ساتھ بلوچستان میں دہرا رہا ہے۔ ان جرائم پیشہ افراد کو مجتمع کرکے چھوٹ فراہم کرنا، مذہبی شدت پسند گروہوں کو بلوچستان میں ٹھکانے فراہم کرنا اور کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کو تشکیل، ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ ان سب کو وقت آنے پر ایک بڑے بلوچ نسل کشی کیلئے استعمال کیا جائے۔
ایک طرف وہی سیاسی جماعتیں، صحافی، مذہبی پیشوا، تاجر موقع ملتے ہی فوجی کیمپ جاکر حاضری لگواتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیسے کیسے ڈاکوؤں کو وہاں سرپرستی حاصل ہے، اور اگلے دن برمش کے گھر جاکر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں، احتجاجوں میں بھی شریک ہوتے ہیں لیکن سیدھے منہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ قاتل کہاں سے آئے تھے اور کہاں گئے اور اسی طرح کے قاتلوں و ڈاکؤں کا مائی باپ کون ہے۔ یہ شریک غم و احتجاج ہوکر محض اصل مدعے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگلے الیکشن میں ووٹ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت ان میں اور ان ڈاکوؤں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بس ڈاکے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
جب تک ان سیاسی، مذہبی و قبائلی جیب کتروں اور گِدھوں کے بابت قوم کو شعور و آگاہی نہیں ہوگا، قابض فوج اور انکے حواریوں کے خلاف ایک بے رحم اور تسلسل کے ساتھ آپریشن نہیں ہوگا، تو ایسے سانحات و واقعات یکے بعد دیگر جنم لیتے رہینگے۔ جتنا بھی بڑا، درد ناک و افسوس ناک سانحہ ہو، بس کچھ وقت بعد تابوت میں بند ہوکر لاوارث ہوکر مردہ خانے میں پڑا رہیگا۔
پچھلے 72 سالوں سے قبضہ پاکستان سے لیکر آج واقعہ ڈنک تک، بلوچ قوم کے ساتھ ایسے کتنے سانحات و واقعات پیش آچکے ہیں، ایسے کتنے جلسے و جلوس، احتجاج، شٹرڈوان، پہیہ جام، بھوک ہڑتال مظاہرے، گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں ہوچکے ہیں۔ یہ سب کے سب انتہائی ضروری ہیں اور ہونا بھی چاہیئے لیکن یہ اصل مسئلے و مرض کا حل و علاج نہ پہلے ثابت ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوسکتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی ضرورت بالکل ہے تو سوچنا اور سمجھنا یہ چاہیئے کہاں تک ضرورت ہے اور کس حد تک ضرورت ہے اور کیوں ضرورت ہے؟
اپنے لوگوں تک اپنی آواز پہنچانے، اپنے لوگوں کو ایک مسئلے پر یکجا کرنے، اپنے لوگوں کو ریاست کا بھیانک چہرہ دِکھانے، سیاسی کارکن پیدا کرنے، ایکٹویزم کی روایت کو مضبوط کرنے، ظلم کے شکار شخص یا خاندان سے اظہار یکجہتی کرنے، غصے کا اظہار کرنے، لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے یہ بالکل ضروری ہے اور ہمیشہ ضروری رہیگا۔ لیکن جمہوری و سیاسی اقدار کو روندنے والے قابض ملک پاکستان سے اگر کوئی یہ توقع رکھے کہ مظاہروں و احتجاج سے بلوچ کوئی تنکا بھر بھی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگا تو یہ بہت بڑی غلطی فہمی ہوگی۔ اگر آپکے احتجاج و ایکٹویزم سے فوج کو ذرہ برابر گمان گذرا کے ایسی تبدیلی آسکتی ہے جو اسے گوارا نہیں پھر آپ کبھی احتجاج ہی نہیں کرسکیں گے۔ احتجاج ضرور کریں لیکن حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو مزاحتمی تحریک کو مضبوط کرنا پڑے گا۔
اسی تناظر میں پاکستان بھی شروع دن سے لیکر آج تک مسلح مزاحمت کو سستی کا شکار بنانے کی خاطر جبر و تشدد سے زیادہ اپنے ہی بلوچوں کے ذریعے یہ کام مختلف شکل و مختلف طریقوں اور مختلف فارمولوں سے انجام دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ مسلح مزاحمت اور غیر مسلح مزاحمت کو کیسے اور کس طرح سردمہری کے خانے میں ڈال دوں، ریاست کے اس ایجنڈے کو کچھ تو باقاعدہ منصوبہ بندی اور ریاستی ایماء پر آگے بڑھا رہے ہیں، کچھ غیردانستہ طور پر اس ایجنڈے پر بغیر مزدوری کام کررہے ہیں۔ جن میں سب سے اہم قابض ریاست و اسکے فوج کے خلاف بلوچ عوام میں اٹھنے والے شدید غم و غصے اور جذبات کو ٹھنڈا کرنا۔ کیونکہ یہ جذبات ایک ساتھ ٹھنڈا نہیں ہوسکتے تو ہمیشہ سے ایک حربہ استعمال کیا گیا ہے کہ پریشر ککر کی طرح پہلے اسکی ہوا نکالی جائے۔ یعنی کبھی اکبر بگٹی کے جنازے کی صورت میں، کبھی پارلیمنٹ میں جذباتی تقریر کی صورت میں، کبھی احتجاجوں میں شرکت کی صورت میں۔
اس غصے اور اس نفرت کو ٹھنڈا ہونے نا دیں، اس سے دشمن خوفزدہ ہے، اسکی طاقت کو جانیں اور سمجھیں کہ آپکے غصے اور نفرت کا اصل حقدار کون ہے، اور سیکھیں اس غصے اور نفرت کو کب اور کس کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔