فکری کج روی
تحریر : آصف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نیشنل ازم کو فاشزم سمجھنا فکری کج روی اور کم علمی ہے۔ “میر علی محمد تالپور اپنے مضمون “کیا نیشنل ازم فاشزم ہے میں لکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس دلیل کو بڑھاوا اور فروغ دیتے ہیں کہ نیشنلزم فاشزم ہے، وہ عوام کیخلاف ریاستی تشدد میں اسکے معاون اور عوام کیخلاف جرائم کے ارتکاب میں برابر کے شریک ہیں”
اگر متواتر نیشنل ازم مخالف لٹریچر پڑھا جائے اور بغیر سمجھے ان پر عمل کیا جائے تو پھر خیالات میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ ان تضادات کو سمجھنے اور حل کرنے کے بجائے انہی پر عمل پیرا ہواجائے تو پھر وہ فرد اپنا سمت کھو دیتا ہے اور بلنڈر کرتا ہے۔ ایسا ہی بلنڈر حمل حیدر نے فیس بک پر بحث کے دوران کیا، اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس نے آوٹ آف کنٹرول ہوکر تضاد بیانی کیا یا پھر ان کا یہ ایکشن ایک سوچے سمجھے عمل کا حصہ تھا جس کا انہوں نے اظہار کیا اتنا بڑا سیاسی غلطی کہ انہوں نے ناظمہ طالب کی قتل کو لے کر نیشنل ازم کو فاشزم سے تشبیہ دے کر نواب خیر بخش مری کو ہٹلر قرار دیا اس نقطے پر آکر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں اور یہ سوالات اٹھائے جائیں گے۔ کیا ناظمہ طالب کی قتل میں نواب مری ملوث تھے یا یہ قتل ان کے حکم پر ہوا تھا ؟ اگر نواب مری فاشسٹ تھے بقول حمل پھر ڈاکٹر اللہ نذر، واحد قمبر، اختر ندیم اور بی ایل ایف کو وہ کس کھاتے میں ڈالتے ہیں اس متعلق ان کا رائے کیا ہے ؟ غلام محمد بلوچ بانی بی این ایم کی سیاست کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ فاشزم سے ان کا مراد کیا ہے اور وہ بلوچ نیشنل ازم کو کس بنیاد پر پرکھتے ہوئے فاشزم قرار دیتے ہیں۔ یہ بات طے اور بلکل صاف ہے کہ یہ بی این ایم کا موقف اور پالیسی نہیں ہے کیونکہ نواب مری کی سیاست، قربانیوں اور طویل سیاسی جدوجہد کے بارے میں بی این ایم کی مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں سب کچھ واضح کیا اور حمل کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا ان کا بیان بروقت قابل تعریف تھا۔ لیکن اب تک حمل نے کوئی وضاحت اپنے اس بیان کے بارے میں نہیں دیا، اس لئے بلوچ قوم پرست حلقوں میں اب تک ان کا نواب خیر بخش مری کی متعلق ریمارکس ایک معمہ کی صورت میں موجود ہے۔
نواب خیر بخش مری کی زندگی کے ہر پہلو پر بحث کیا جاسکتا ہے، سوال اٹھایا جاسکتا ہے لیکن انہیں فاشسٹ قرار دینا ظلم ہے۔ ایک انٹلیکچوہل دوست کے بقول خیر بخش مری فینن، سارتر اور ایڈورڈ سعید کے ہم پلہ فلسفی تھے۔ حمل جب تک اپنے اس موقف کے متعلق مدلل انداز میں وضاحت نہیں کرینگے کہ وہ کس بنیاد پر نواب مری کو ہٹلر اور نیشنل ازم کو فاشزم سے تشبیہ دیتے ہیں اس وقت تک یہ ایک معمہ ہی رہے گا۔ اس وقت تک بحث و مباحثہ، تنقید و سوالات کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا، جب تک سیاسی کارکن کسی ایک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتے۔ اب بھی بعض سیاسی مجالس میں یہ بات زیر بحث ہے کہ ساجد بلوچ کی سوئیڈن میں بہیمانہ قتل کے بعد بلوچ ڈائسپورا خوف کا شکار ہوچکا ہے، حمل کا یہ عمل اس خوف کا اظہار ہے۔ کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ حمل بذات خود تھکاوٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور کچھ اس کو بی این ایم کی اندرونی اختلافات کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ حمل کا یہ موقف اور بیان بلوچ نیشنل ازم پر خود کش حملے کی مترادف سمجھا جاتا ہے اور خود ایک نیشنلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما نے اپنے نظریات پر خود کش حملہ کیا ہے۔
نیشنل ازم پر یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بلوچستان میں ایک نئی پارٹی سوشلسٹ نظریات پر تشکیل دینے کی بازگشت سنائی دی جارہی ہے۔ نئی پارٹی کی خالق یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں نیشلسٹ نظریات پر جدوجہد ناممکن ہے اور بلوچ مسئلے کا حل نیشنل ازم میں نہیں بلکہ سوشلزم و سوشلسٹ جدوجہد و نظریات میں پنہاں ہے۔ اس ڈسکشن کا آغاز سابق بیورو کریٹ کہور خان نے اوپن کیا ہے وہ اپنے ایک وٹس اپ پیغام اور عابد میر کو دئے گئے پلانٹڈ انٹرویو میں بلوچستان میں موجود پارٹیوں، تنظیموں اور موجودہ تحریک کو موقع پرستانہ سیاست قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بلوچستان میں ایک سیاسی گھٹن اور ویکیوم موجود ہے اس ویکیوم کو پر کرنے کے لئے ایک نئی پارٹی کی ضرورت ہے۔ اب یہ گھٹن اور خلا کہاں موجود ہے، کیوں موجود ہے یہ کہور خان بہتر سمجھتے ہیں، ایک وہ سیاسی عمل کا ماضی میں حصہ رہے ہیں دوسرا اب وہ تازہ تازہ سرکاری عہدے سے فارغ ہوئے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہے کہ یہ خلاء ریاست نے پیدا کیا ہے ان تمام سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو چن چن کر اس لئے قتل کیا گیا اور جبری گمشدگیوں کا شکار بناکر عقوبت خانوں میں ڈالا گیا تاکہ بلوچستان میں پولیٹیکل ویکیوم جنم لے، اب اس نوآبادیاتی کھیل کا حصہ کہور خان بن رہے ہیں وہ اس پولیٹیکل ویکیوم سے فائدہ اٹھا کر ریاست سے بارگینگ کرنا چاہتے ہیں لیکن بلوچ شہیدوں کا خون اتنا سستا نہیں کہ کوئی اپرچونسٹ پرسنل بینیفٹ کے لئے (کولیکٹیو نیشنل انٹرسٹ) اجتماعی قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکیں۔ نیشنل موومنٹ سے جڑے پارٹیوں میں اصلاح اور مزید امپرومنٹ کی گنجائش ضرور موجود ہے لیکن مزید تقسیم کی گنجائش ہرگز موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ عمل قابل برداشت ہے۔
وقت و حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قوم پرست کارکن نیشنل ازم کے حوالے سے اپنی فکری پختگی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے نیشنل ازم کے خلاف ترتیب دئیے گئے کانسپیرسی تھیوریز کو ناکام بنانے کے لئے فکری، علمی کرداد ادا کریں۔ بلوچ نیشنل ازم پر نوآبادیاتی اور نظریاتی حملوں کو ناکام بنانے کے لئے بلوچ دانشور نیشنل ازم، نیشنل اسٹیٹ کی تشکیل کے حوالے سے بلوچ نوجوانوں اور قوم کی نظریاتی و فکری تربیت کریں تاکہ نیشنل ازم کے حوالے سے کچھ ناپختہ حلقوں میں جو فکری ابہام پائی جاتی ہے وہ دور ہوسکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔