فکری بانجھ پن کے نشان – نادر بلوچ

261

فکری بانجھ پن کے نشان

تحریر : نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قومی تحریک کا دارمدار نظریہ ہے، جو سمت و رہنمائی کا کردار اد کرتی ہے۔ نظریہ کی سمجھ فکر سے پیدا ہوتی ہے، جب فکر کمزوری کا شکار ہو تو اسکو فکری بانجھ پن سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ تحریک کو منزل پر پہنچانے کی ذمہ داری سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کی ذمہ داری ہے، نظریہ کو سمجھنا اس پر کاربند رہنے کیلئے فکری پختگی کا ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ فکری بانجھ پن کے شکار سیاسی کارکن اور رہنماء نظریہ اور تحریک دونوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ منزل کا تعین مشکل نہیں ناممکنات میں ہوتی ہے۔ ایسے کردار جو تذبذب کا شکار رہتے ہیں، وہ اداروں کی کاوشوں کو ملیامیٹ کرتے ہیں، نظریاتی سرحدوں کو توڑ کر سرآب میں داخل ہوکر ٹوٹ جاتے ہیں، تھکاوٹ و بے راہ روی کا شکار ہوکر مایوسی کا پرچار کرتے ہیں۔

حمل ، امداد اور کہور بھی اسوقت نظریاتی بانجھ پن کی وجہ سے قومی تحریک کی بنیاد نیشنل ازم کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوئے نظریاتی سرحدوں کو توڑ کر قومی رہنماوں اور قومی تحریک پر کیچڑ اچھانے والے کرداروں میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ سب ایک وقت میں سیاسی ساتھی رہے ہیں، انکے ساتھ ذاتی کوئی اختلاف نہیں لیکن اسں سوچ سے جو تعفن اٹھا ہے، اس منفی فکر پر لب کشائی کرنے کا مقصد ان عوامل کی بیخ کنی کرنا ہے، جنکی وجہ سے سیاسی ساتھی بے عملی و فکری بانجھ پن کا شکار ہوکر نیشنل ازم کو فاشسٹ، فرسودہ، قرار دیکر گلو خلاصی کی کوشش کرتے ہیں۔

آج کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد پہلی مرتبہ بلوچ قومی تحریک میں متحرک سیاسی و مزاحمتی ادارے، تنظیمیں، پارٹیاں واضح موقف کے ساتھ تحریک کی بنیاد نیشنل ازم پر استوار کررہی ہیں۔ اسی راہ و فکر پر قائم رہ کر بلوچ قومی سوال کو حل کیا جاسکتا ہے۔ نیشنل ازم سے ہٹ کر بلوچ قومی سوال کے حل کا متبادل کوئی دوسرا نظریہ نہیں ہے۔ قوم پرست تحریک ہونے کی وجہ سے بلوچ نیو نیشنل ازم کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نظریہ ہزاروں شہیدوں کے لہو سے وجود اور قربانیوں سے برقرار ہے۔ سیاسی کارکن اپنے نظریہ اور عمل کا پوری طرح سے ادراک رکھتے ہوئے عمل کے ہر میدان میں برسرپیکار ہیں۔

نیشنل ازم کے نظریہ سے وابستہ ہر مورچہ بحال اور وجود رکھتی ہے۔ شہید استاد اسلم بلوچ کے بقول بلوچ پر حملہ آور ریاست ہوا ہے اس نے بندوق اٹھانے میں پہل کی ہے، بلوچ نے اپنے دفاع میں بندوق اٹھائی ہے۔ تشدد کا راستہ ریاست نے قلات پر ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کرکے چنا نہ کہ بلوچ نے قابض کے سرزمین پر حملہ کیا ہے۔ آزادی کے چن جانے سے بلوچ نیشنل ازم کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔آج بھی بلوچ نیشنل ازم ادھوری ہے، یہ تب تک نامکمل رہیگی جب تک بلوچ قوم کے گلے میں طوق غلامی لٹکتی رہیگی۔ تاریخ سے انکار کرنے والے لوگ بلوچ قومی سوال سے انکاری تصور ہونگے۔

منفی سرکل آج بھی موجود ہیں، جو ایسے ناکام لوگوں پر مشتمل ہے جو بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے کنارہ کش ہوگئے یہ فکری بانجھ پن کی وجہ سے نیشنل ازم کو پوری طرح قبول کرنے سے منحرف ہیں۔ حمل، امداد، کہور خان بلوچ قومی تحریک کے حوالہ سے گمراہ کن پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ این جی او طرز پر سیاست کرنے کے خواہاں ہیں۔ تحریر و تقریر سے ایسے سرکلز اور سوچ کی نشاندہی کی کوشیش جاری ہے، جو بلوچ قومی تحریک میں لبرل ، سوشلسٹ اور سیکولر سوچ کے نام پر طبقاتی، علاقائی تعصب و تقسیم کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ منفی سوچ ہے جو نیشنل ازم کی سوچ کو تضاد کا شکار بنانا چاہتے ہیں ۔ اس مکروہ فعل سے بلوچ نوجوان سیاسی کیڈر کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے جسکے قومی تحریک پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

طبقاتی ، علاقائی، سیاست سے جوڑی یا متفق کوئی بھی نظریہ کامل نہیں کہلائی جاسکتی، انکی سوچ نیشنل ازم سے متصادم ہے، ایسے سرکل جنکا بنیادی مقصد تفریق ہو وہاں فکری بانجھ اور تخریب جنم لیتی ہے۔ اگر ایسے غیر سنجیدہ ، بغض و نظریاتی کمزوری کے شکار افراد سیاست کے نام پر بلوچ تاریخ، جہد و جہد، قومی اقدار سے کہلواڑ کریں گے تو یہ مسلم لیگ اور وفاقی پرست پارٹیوں سے زیادہ قومی تحریک کو نقصان دینگے۔ قوم دوست اور قوم پرست سیاسی کارکن ایسے اقدامات کو سنجیدہ لیکر سازشی تھیوریز کو ناکام بنائیں، بلوچ دانشور نینشنل ازم کی ترویج پر اپنے جاری کام کو وسعت دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔