سب یاد رکھا جائے گا – دانیا مینگل

721

سب یاد رکھا جائے گا

‎تحریر: دانیال مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوکر ایک اسلامی ملک بنا۔ بلوچستان پاکستان سے پہلے ایک علیحدہ آزاد ریاست تھی “ریاست قلات”۔ پاکستان کی آزادی کے وقت قائد اعظم نے خان آف قلات سے رائے لی کہ آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں یا آپ ایک آزاد ریاست میں رہنا چاہتے ہیں، خان آف قلات اور تمام بلوچ نواب، سردار ایک آزاد ریاست میں رہنا چاہتے تھے ۔

اب 11 اگست 1947 کو قائد اعظم اور خان آف قلات کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں یہ طے ہوا کہ قلات ایک علیحدہ آزاد ریاست ہوگی۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوگیا۔

پاکستان کی آزادی کے کچھ ہی عرصہ بعد قائد اعظم نے خان آف قلات سے درخواست کی کہ آپ پاکستان میں شامل ہو جائیں، اس پر خان آف قلات نے قائد اعظم سے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے آپ کو جواب دونگا۔ پھر ہوا یوں کہ قلات اسمبلی میں اس معاملے پر بات چیت ہوئی ہی تھی اور اب تک اسکا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلا تھا کہ، شال(کوئٹہ) سے ایک جنرل صاحب کو آرڈر ملا تھا اور انھوں نے قلات پر حملہ کردیا۔ یہ ریاستِ پاکستان کا بلوچستان پر پہلا حملہ تھا، اور یہ ظلم کی پہلی داستان جو آج تک جاری ہے۔

پھر 1948 میں پاکستان ریاست نے زبردستی بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ پاکستان کا بلوچستان میں پہلا فوجی آپریشن تھا، اس فوجی آپریشن کے خلاف خان آف قلات کے بھائی پرنس کریم نے مذمت کی، تو پرنس کریم کو پہاڑوں سے نیچے اتارنے کے لئے قرآن پاک کا سہارا لیا گیا اور کہا گیا کہ آپ نیچے آئیں آپ کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ پرنس کریم قرآن پاک کا سن کر پہاڑوں سے نیچے آئے اور انھیں گرفتار کر لیا گیا ۔ یہ پاکستان ریاست کا بلوچوں کے ساتھ پہلا دھوکہ تھا۔ سب یاد رکھا جائے گا۔

پھر 1955 میں جب ون یونٹ بنایا گیا ، اس ون یونٹ کے خلاف خان آف قلات نے مذمت شروع کی اور ان کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان کو اس کا تشخص دیا جائے اور بلوچستان کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

پھر 1958 میں دوبارہ ایک فوجی آپریشن ہوا قلات کی جامع مسجد کے مینار پر قلات کا پرچم لہرایا گیا تو اس پرچم کو گرانے کے لیے اس مسجد پر بمباری کی گئی۔ اس پر نواب نوروز خان نے ایک اور مذمت شروع کی، تو نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے نیچے اتارنے کے لیے قرآن پاک کا سہارا لیا گیا۔ نواب نوروز خان کو ان کے بیٹے اور ساتھیوں سمیت دھوکہ دے کر گرفتار کر لیاگیا، نواب نوروز خان کے بیٹے اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی، اور 90 سال کی عمر میں نواب نوروز خان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، اور یوں یہ بلوچ قوم کے ساتھ دوسرا دھوکہ تھا۔ سب یاد رکھا جائے گا۔

یہ سلسلہ جاری رہا 1962 میں تیسرا فوجی آپریشن ہوا، 74-1973 میں چوتھا فوجی آپریشن شروع ہوا اس آپریشن میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے نواب خیر بخش مری کو گرفتار کروا کے فیصل آباد کی جیل میں، سردار عطا اللہ مینگل کو گرفتار کرکے ساہیوال جیل اور میر غوث بخش بزنجو کو گرفتار کروا کے میانوالی کی جیل میں ڈال دیا۔ سب یاد رکھا جائے گا۔

اب آتے ہیں جناب جنرل پرویز مشرف کی طرف اب ان کی باری تھی جنرل صاحب کے کرتوت کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، انھوں نے اس نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کروایا جس نواب اکبر بگٹی نے 1947 میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد بلوچستان میں خون کی ہولی شروع ہوئی۔ اُس کے بعد 2006 میں سردار اختر مینگل کی گرفتاری، پھر 2007 میں نواب بالاچ مری کی شہادت۔ سب یاد رکھا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بلوچستان دوزخ بن چکا تھا، کوئٹہ، خضدار، مستونگ، آواران، مند ، مکران، تربت، خاران، قلات،مشکے، سوراب پنجگور اور گوادر ہر شہر کے ہر چوک پر خون کی ندیاں بہا دی گئی۔ اس دوران بلوچستان کے کئی پریس کلبوں پر تالے لگائے گئے، بلوچستان کا چہرہ دکھانے والے صحافی بھی موت کے گھاٹ اتارے گئے، بلوچستان میں ہر سچ بولنے والے والے شہری، سیاستدان کچھ کو اغواء کیا گیا تو کچھ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ” نامعلوم افراد نے قتل ” کا ٹھپہ لگا دیا گیا، یہ ظلم کی داستان آج بھی جاری ہے ۔ سب یاد رکھا جائے گا۔

کوئٹہ میں حبیب جالب کا سینہ گولیوں سے چھلنی اور خضدار میں حاجی عطاء اللہ مینگل کا سینہ گولیوں سے چھلنی، اور بلوچستان کے ہر گھر سے مسخ شدہ لاشیں، ماما قدیر، علی حیدر اور ہماری ماں بہن، چھوٹے بڑے سب کا 27 اکتوبر 2013 کوئٹہ ٹو کراچی کراچی ٹو اسلام آباد تقریباً 2500 کلومیٹر پیدل لانگ مارچ، بلوچستان کے 20 ہزار سے زائد مسنگ پرسن، ہنی بلوچ کے ساتھ زیادتی، نصیر بلوچ کی ننی بہن کی سردی 4 سینٹی گریڈ میں کوئٹہ کی سڑکوں پر چیخیں، حسیبہ، ماہ رنگ اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ماؤں بہنوں کی گرتے آنسو اور چیخ و پکار، چھوٹے بچوں کے باپ کا انتظار، ماوں کا بیٹوں کے انتظار میں مر جانا، بہنوں کا بھائیوں کی دلہن کو سجانے کی خواہش، چھوٹے بھائی کا بڑے بھائی سے ڈانٹ سننے کا انتظار والد کا بیٹے سے “ابا” سننا، بیوی کا شوہر کے ساتھ کھانا کھانے کا خواب ، سب یاد رکھا جائے گا۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایم فل سکالر شہداد بلوچ اور احسان بلوچ کا خون، صحافی ساجد حسین اور ملک ناز کی شہادت، برمش کا زخمی ہونا ماں کے بچھڑنے کا غم، امام اسحاق کے انتظار میں بہن کا دلبرداشتہ ہوکر خود کو موت کے گھاٹ اتارنا ۔ کلثوم کا گلا بچوں کے سامنے کاٹنا، سب یاد رکھا جائے گا! ذاکر مجید بلوچ کی گمشدگی، محمد حسن قمبرانی ، فیروز، راشد ، نوازا عطا، ڈاکٹر دین محمد ، بلوچستان کا پہلا مسنگ پرسن سردار اسد مینگل، اور جلیل ریکی کی لاش، بلوچستان کے ہر شہید کی شہادت،بلوچستان کے ہر مسنگ پرسن کے ساتھ ریاستی ظلم و جبر،سب یاد رکھا جائے گا! توتک واقعہ، کوئٹہ سول ہسپتال میں 93 شہادتیں اور 130 زخمی، سانحہ مستونگ، واقعہ بلوچستان یونیورسٹی، واقعہ بی ایم سی، ہر بلوچ طالب علم کے ساتھ ناانصافی، ہر ماں کے آنسوں ہر بہن کے آنسوں بلوچستان کے ہر بچے کو یتیم کرنا، سب یاد رکھا جائے گا! سب یاد رکھا جائے گا!

تو تم زمین پہ ظلم لکھ دو آسماں پہ انقلاب لکھا جائے گا، تمہارے لاٹھیوں اور گولیوں سے قتل ہوئے ہیں جو میرے یار سب ان کی یاد میں دلوں کو برباد رکھا جائے گا۔ سب یاد رکھا جائے گا، سب یاد رکھا جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔