ساجد ہمیں معاف کرنا
تحریر: زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ساجد تمہارا یوں بچھڑنا پورے قوم کو صدمے سے دوچار کرگیا، ابھی تک اس کھٹن راستے پہ بہت چلنا تھا نجانے کہاں کہاں جلاوطن ہونا پڑتا، قدرت کے ہر شاہکار میں اپنے وطن کی یادیں تازہ کرنی پڑتیں۔ یوں اس سفر کے عین بیچ میں یا شاید ابتداء تھی یا اختتام کے قریب مگر تمھارا یوں چلے جانا۔ نہیں یار ایک بار غیر ملک میں ہم نے اپنے ایک دانشور، علم دوست ادیب کتاب دوست عارف باکرزئی کو بھی کھویا تھا، جس کی موت نے بہت نقصان دیا، تمھاری قلم نے، دانش نے، وسعت نظری نے، اس خلا کو یقیناً پر کردیا مگر یہ خلا جو ابھی وجود رکھتا ہے اسکا کیا؟
ساجد ہمیں معاف کرنا، اب ھم ہر ایک چیز کے لئے بس ایک مقرر کردہ وقت تک ہی موجود ہیں اسکے بعد ان حالات نے ہمیں ایک نئے سانحے کے لئے ایک نئے event کے لئے انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اب لاشوں کا گرنا، لاپتہ کئے جانا ہمارے شعور میں پیوست ان حالات کی طرح ہوچکی ہے، جیسے ایک بینائی سے عاری انسان کے لئے۔۔۔۔۔۔ زندہ باد مردہ باد سے تھک کر اب قومی سیاست میں ھم انتظار کرتے ہیں کہ کب کچھ ہوجائے اور ھم کچھہ کہہ سکیں۔ معذرت ساجد جان۔
تمہارے نزدیک کے لوگوں کے لئے تمھارے بچھڑنے کا زخم ابھی تازہ ہے، دردناک ہے، جو شاید رات کو آرام کرنے نہ دے، سکون سے بےسکون کردے۔ شاید ان حالات میں رہنا ممکن نہیں کہ کسی کا اپنا، جو سب کا ہو، پورے قوم کا ہو، اسکا یوں بچھڑنا، یہ زخم شاید کبھی نہ بھر پائے۔ جب کبھی صحافت، ادب، دانشوری و کتاب دوستی کا نام لیا جائے گا ساجد تمہارا نام سر فہرست ہوگا۔
آج کے دنیا میں جہاں اقوام عالم انسان و انسان دوستی کی راگ الاپتے تھکتے نہیں، وہیں تمھارے یوں بچھڑ جانے نے پوری دنیا کے اس نام نہاد انسان دوستی کے منہ پہ تمانچہ دے مارا کہ انسانیت پرستوں کے شہر میں ایک عظیم انسان کو شہید کردیا گیا۔ ایک عظیم انسان کو جس کے قلم کے گونج کے نے دشمن کو یہاں تک مجبور کردیا کہ وہ سمندر پار ایک عام بلوچ کو ایک صحافی کو ایک ادیب کو ایک جلاوطن بلوچ کو مارنے چلا آئے۔
ساجد جان م اکثر سنتے رہتے ہیں کہ آج کے بلوچ جہد کو سیاسی، مسلح و سفارتکاری بنیاد پر ایک ساتھ لے کر چلیں، وہی سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر سماجی و سیاسی ہتھیار بن چکا ہے، جسے تم نے اپنے شعور و زانت سے اس مقصد کے لئے استعمال کیا اور ہمیں اسکی اہمیت تک بتا گئے، مگر ساجد جان ہمیں معاف کرنا ھم تمہیں بھولنے کے دہانے تک آپہنچے، جہاں اگر کوئی ہمیں یاد نہ دلائے تو ھم اس بات کا گمان تک نہیں کریں گے، خواہ ایسا بھی ہوا تھا۔ جیسے تمھاری شہادت پہ ھم نے دو تین چار دنوں تک اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ تصاویر آویزاں کرکے اظہار یکجہتی کی اسکے بعد کیا ہوا ؟
تصاویر بدلتے رہے، اب ساجد جان اگلے سال اسی دن شاید یہ محسوس کرلیں کہ اس وقت ہمیں اس ہتھیار کو تمھارے اور پورے قوم کے لئے بین الاقوامی سطح پر ایک عالمگیر احتجاج کی صورت میں ریکارڈ کروا دیتے مگر ۔ ۔ ۔ سامراج نے اس کام سے پہلے ہی ایک نیا کام ہمیں سونپ دیا، جب تک وہ دیا بجھ جائے تمہارا زخم بھی ہلکا ہوجائے گا۔ ساجد تمہیں یوں جلدی نہیں کرنا چاہیئے تھا، یار تمہاری ضرورت پوری قوم کو، قومی جہد آزادی کے راستے میں بنے رکاوٹوں کو دور کرنا، انہیں حل کرنا اور ایک نیا راستہ نکالنا، ایک سیاسی دماغ کا کام ہے اور ساجد جان تم انہی لوگوں میں شمار کیئے جاتے ہو جو راستہ دکھاتے ہیں۔
جنہیں کتابوں سے لگاؤ ہے، جنہیں قلم کی طاقت کا اندازہ ہے، جنہیں قلم کی قوت سے دشمن کے نیندیں اڑانے کا ہنر بخوبی آتا ہے اور یہ ہنر بس اتنا سا ہے، ایک اس سچائی کو سامنے لایا جائے جسے سامراج ہر ایک قدم پہ چوکی بنا کر ختم کرنے کے درپہ ہیں ۔ اور اسی سچائی کو لکھنے کی اقوام عالم کے سامنے لانے کی ہمت تم نے کی مخلصی، ہمت و ثابت قدمی ساجد تمھارا اپنے مقصد سے اتنی مضبوطی جھیلنے کے باوجود اپنے کام پہ مخلص رہنا، ہمت کرکے منزل کی طرف سفر کرتے رہنا شاید ھم جیسا کمزور انسان ہوتا تو امارات میں مزدوری کررہا ہوتا، عیاشی کررہا ہوتا مگر ۔۔۔۔۔ ساجد یہ خلا جو تم چھوڑ گئے شاید یہ کبھی نہ بھر سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔