زبان کا زخم – رشید بلوچ

621

زبان کا زخم

تحریر: رشید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک جنگل کے قریب ایک لکڑہارے کا گھر تھا۔ جو انتہائی غریب تھا۔ وہ روزانہ قریبی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تھا اور پیسہ کماکر اپنا گھر چلاتا تھ، وقت گذرنے کے ساتھ قریبی جنگل کی سوکھی لکڑیاں ختم ہوگئیں۔ تو وہ کسی دوسرے بڑے جنگل میں لکڑیاں توڑنے گیا۔ جنگل میں اس نے ایک درخت کے سوکھے تنےکو کلہاڑی سے کاٹنا شروع کیا۔ کاٹنے کی آواز سن کر جنگل سے ایک شیر لکڑہارے کے پاس آیا اور اس سے کہا اس جنگل میں لکڑیاں کاٹنے والا کبھی بھی واپس گھر نہیں گیا ہے۔ لکڑہارا شیر سے منتیں کرنے لگا کہ آپ مجھے مت کھاؤ، میں ایک لکڑہارا ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میری بیگم بیمار ہے، آپ اگر مجھے کھاجائیں گے، تویوں سمجھو کہ آپ نے میرے پورے خاندان کو کھالیا ہے۔ کیونکہ میں لکڑیاں کاٹ کر انہیں پال رہا ہوں۔ بچے چھوٹے ہیں، بیگم بیمار ہے، میرے بعد انہیں کوئی کما کر کھلانے والا نہ ہوگا، وہ بھی مر جائیں گے اور نہ صرف آپ میرےکھانے کے قصور وار ہونگے بلکہ میری بیوی اور بچوں کی موت کا ذمہ آپ ہی کے سر ہوگا۔ شیر کے دل میں لکڑہارے کی باتیں سن کر اسکے لئے ترس پیدا ہوگیا۔ شیر نے لکڑہارے کو لکڑیاں کاٹنے کی اجازت دے دی۔

اب لکڑہارا روزانہ اسی جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جایا کرتا۔ شیر جب لکڑیاں کاٹنے کی آواز سن لیتا تو لکڑہارے کے قریب آجاتا ۔دونوں کی آپس میں دوستی ہوگئی۔

وقت گذرتا رہا۔ اچانک لکڑہارا بیمار ہوگیا۔ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے نہیں گیا۔ شیر نے دل میں سوچا لکڑہارے کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ ہوا ہوگا کیونکہ اس نے کہا تھا میرےگھر کا گذر بسر صرف لکڑیاں بیجنے پر ہوتا ہے۔

کافی دن گذر جانے کے بعد بھی لکڑہارا شیر کو جنگل میں نظر نہیں آیا۔ شیر کے دل میں لکڑہارے کی کہی ہوئی بات یاد آرہی تھی کہ لکڑہار نے کہا تھا اگر آپ مجھے کھاوگے تو میرے بچےبھوک سےمرجائیں گے کیونکہ انہیں کوئی کما کے کھلانے والا نہ ہوگا۔ شیر کے دل میں لکڑہارے کے لیےطرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔

آخر شیر لکڑہارے کا حال احوال لینے کے لیے لکڑہارے کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ شیر جنگل سے نکل کر آبادی کے نزدیک آتا رہا یہاں تک کے شیر لکڑہارے کے گھر کے قریب پہنچ گیا۔ لکڑ ہارے نے جیسے ہی کو شیر کو دیکھا کہ یہ جنگل کا وہی شیر ہے جو روزانہ مجھ سے جنگل میں ملا کرتاتھا۔ لکڑہارے نے غصے سے چلاتے ہوئے شیر کو کہا کہ ایک وحشی درندے کا انسانوں کی بستی میں کیا کام؟

شیر کو لکڑہارے کی بات سن کر بہت دکھ ہوا، وہ واپس جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جنگل میں جاکر لکڑہارے کی کہی ہوئی بات دل میں لیکر آنسو بہاتا رہا۔

کچھ دن بعد لکڑہارا صحت مند ہوا، تو واپس اسی جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا۔ درختوں کے کٹنے کی آواز سن کرشیر لکڑہارے کے قریب آیا اور اداس لہجے میں یوں مخاطب ہوا “اے دوست ! اگر تجھے میرا ساتھ پسند نہیں تو جس کلہاڑی سے تم لکڑیاں کاٹا کرتے ہو، میرا بھی آج اسی سے کام تمام کردو، یا یہ کہ اگر تمہیں پسند ہوں تو آج کے بعد میں کبھی تمہارے سامنے نہیں آونگا۔”

اس ظالم لکڑہارے کواپنے مخلص دوست کی پرخلوص گفتگو پر بھی رحم نہ آیا اور اس نے بے اختیار کلہاڑی کی کاری ضرب سے اپنے دوست کو شدید زخمی کردیا۔

اب لکڑہارا روزانہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتا اور کبھی کبھی اُسے وہ شیر یاد آجاتا اور اسکا سر ندامت سے جھک جاتا کہ کیسے اس نے اپنے مظلوم دوست کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، حالانکہ وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ شیر ابھی تک مرا نہیں بلکہ اسکی ضرب سے زخمی ہوا تھا اور آہستہ آہستہ اُسکے زخم مندمل ہورہے تھے۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا شیر مکمل صحت یاب ہوگیا۔ یہاں تک وہ کلہاڑی کی ضرب کا نشان بھی اسکے جسم سے جاتا رہا پھر ایک دن شیر نے کچھ سوچ کر اُس لکڑہارے کے پاس جانے کا فیصلہ کیا، لکڑہارا شیر کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگیا اسکی جان پر بن آئی شیر نے نہایت دھیمے لہجے میں لکڑ ہارے کو کہا! تمہیں کیا لگا، میں تمہارے کلہاڑے کی ضرب سے مرگیا ہوں؟ اوردیکھو میرے جسم پر اُس کاری وار کا نشان تک نہیں، جسکی ضرب سے تم نے مجھے موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔

ہاں البتہ میں مرتو اسی دن گیا تھا جس دن تم نے اپنے گھر کی دہلیز پر اپنے الفاظ کے نشتر سے میرا سینہ چلھنی کر دیا تھا۔

یہ کہہ کر شیر نے آناً فاناً اس خودغرض لکڑہارے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا اور اپنے عمل سے ہمیں یہ پیغام دے دیا کہ” تلوار کا زخم تو کھبی نہ کھبی بھر جاتا ہے لیکن زبان کا لگایا ہوا زخم کھبی نہیں بھرتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔