بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3976 دن مکمل ہوگئے۔ لورالائی سے سیاسی و سماجی کارکن نیاز محمد نیازی، انجینئر سردار زادہ حمزہ زئی، عملدار چانڈیو بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا جبکہ مختلف علاقوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وی بی ایم پی کے ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچ پرامن تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایک طرف نوجوانوں میں شعور و فکر اور نظریہ بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے اور لوگوں میں ایک جذبہ پیدار کررہا ہے کہ وہ اس وقت اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عملی کوشش کریں تو دوسری طرف پاکستانی ریاست اس سیاسی بیداری سے خائف اپنے پوری طاقت کے ساتھ بلوچ پرامن اور جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپنے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لاکر بلوچ نسل کشی کا عملا آغاز کرچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اپنے پالیسی سے ایک طرف بلوچ آبادیوں پر آتش و آئن برساکر عام شہریوں کے قتل عام کر مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اپنے روایتی مارو اور پھینکو کی پالیسی پر بھی تندہی سے بدستور عمل پیرا ہے۔ آج بلوچ فرزندوں کی اغواء کی وجہ سے بلوچ پرامن اور جمہوری تحریک دنیا بھر میں روشناس ہوچکا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ پرامن تحریک میں عالمی پذیرائی میں خواتین، بلوچ طلباء کا ایک بہت بڑا کردار ہے جنہوں نے اپنے لازوال اور انتھک محنت سے فلسفہ حقوق کو ہر بلوچ کے ذہن میں نقش کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرامن جدوجہد نے ریست کو اس حد تک بھوکلا دیا ہے کہ وہ غیر مسلح پرامن بلوچ خواتین، نوجوان، بچوں، بزرگوں کو لاپتہ کرنے یا شہید کرنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کی شدت میں قابض ریاست روزانہ اضافہ کررہا ہے۔ ریاست ان نسل کش پالیسیوں کے شدت مین اضافہ کرتے ہوئے اب عام شہریوں کے گھروں پر بمباری کرنے چادر اور چاردیواری کی پامالی کرکے انہیں لوٹنے اور بعدازاں جلانے کا سلسلہ کافی عرصے شروع کرچکا ہے۔