درسگاہِ آزادی بابا مری – شہیک بلوچ

318

درسگاہِ آزادی بابا مری

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دھیمہ لہجہ، سرخ و سفید رنگ، گہری آنکھیں، مختصر و مدلل گفتگو۔۔۔۔ بابا مری کی انسانیت سے بھرپور شخصیت انسان کو گرویدہ ہونے پر مجبور کردیتی تھی۔ وہ عاجزی کا پیکر تھے۔ ان کو دیکھ کر سدھارتا گوتم بدھ کا تصور ذہن میں ابھرتا۔۔۔ میں جب بھی سدھارتا کے بارے میں پڑھتا ہوں مجھے بابا مری کا گمان ہونے لگتا ہے۔

کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں سدھارتا سے اس کے ایک پیروکار نے پوچھا کہ “آپ خدا ہو؟”
سدھارتا نے نفی میں جواب دیا۔۔۔
تب پیروکار نے پوچھا “پھر کوئی پیغمبر؟”
سدھارتا نے پھر جواب دیا “نہیں۔”
تب پیروکار نے پوچھا “کوئی “ولی”؟
سدھارتا نے پھر وہی جواب دیا کہ نہیں۔۔۔
تب آخر میں پیروکار نے قدرے بیزاری سے پوچھا کہ “پھر آخر آپ ہو کون؟”
ایک گہرے پرسکون مسکراہٹ کے بعد سدھارتا نے جواب دیا ” میں جاگا ہوا ہوں۔”

وہ جاگا ہوا تھا، اس کا تصور ہم بابا مری کی صورت میں کرسکتے ہیں جو جاگے ہوئے تھے۔ قبائلی سماج کی زوراکیوں میں جنم لینے والا بابا مری کوئی روایتی سردار بننے کی بجائے ایک انقلابی رہبر بنا۔ بابا مری نے بلوچ قوم کو نیشنلزم کا احساس دلایا۔

بابا مری نے تاریخی عمل کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک بلوچ اپنے گلزمین کے وارث خود بن کر من حیث القوم نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا نہیں پاتے، تب تک بلوچ کی قسمت نہیں بدلیگی۔

بلوچ قومی تحریک بابت وہ یہ سمجھتے تھے کہ بلوچ کی رہبری واضح نہیں تھی، ایک تصور ضرور تھا لیکن وضاحت کی کمی تھی، پختگی نہیں تھی۔۔۔ انہوں نے بلوچ قوم کے لیے واضح کردیا کہ بلوچ قوم کو شخصی، قبائلی و علاقائی لیول سے اوپر اٹھ کر نیشنلزم کی بنیاد پر ایک منظم قوت کے طور پر ابھرنا ہوگا اور اس کے لیے سب سے بڑی قربانی انہوں نے اپنے ہی شخصیت کی دی۔ کسی بھی مرحلہ میں انہوں نے اپنے شخصیت کو تحریک پر حاوی ہونے نہیں دیا بلکہ حتی الوسع وہ اسی کوشش میں رہے کہ بلوچ قومی تحریک کو شخصیت پرستی کے سحر سے دور رکھا جائے۔ گو کہ بلوچ نوجوان ان کو پرستش کی حد تک چاہتے تھے لیکن بابا مری نے نرگسیت کا شکار ہونے کی بجائے انقلابی آدرشوں کی پاسداری کی اور بلوچ قومی تحریک کو تنظیمی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کی۔

وہ کسی بھی موقع پر مصلحت پسندی کا شکار نہ ہوئے نا ہی کبھی جذباتی ہوئے بلکہ ہر انٹرویو میں وہ بلوچ جہدکاروں کو سنجیدہ پیغامات دیتے۔ وہ بار بار اس بات کی تاکید کرتے کہ ریاست بہت زیادہ چالاک و سفاک ہے اور اس سے خود کو چھپائے رکھنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ وہ لاپرواہ رویوں کے خلاف تھے اور ہیروازم کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ دن کے اجالے سے زیادہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں اس بابت کہ مری بلوچوں نے کاہان کے لڑائی میں رات کا انتظار کیا، پھر رات کو دشمن کو للکار کر حملہ کیا, پھر وہ اس واقعے کے حوالے سے پوچھتے ہیں کہ پھر رات کی تاریکی کا کیا فائدہ جب دشمن کو خود آگاہ کردیا؟

بابا مری نے یہ پیغام بھی دیا کہ “دن میں عام انسان کی طرح رہو اور رات کی تاریکی میں دشمن پر قہر بن کے ٹوٹ پڑو۔”

بابا مری بلوچ قوم کو من حیث القوم اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی تعلیم دیتے رہے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ جب بلوچ ایک قوم کی حیثیت سے اپنی منزل کو حاصل کرینگے، تب ہی وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھ پائینگے۔ جدوجہد ایک تعلیم ہے، جس کے ذریعے بلوچ سیکھ سکتے ہیں اور یہی واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے شعور میں پختگی آسکتی ہے۔

وہ ایک دوراندیش رہبر تھے، جو اکثر کہتے تھے کہ ابھی بلوچ تحریک طفلی مرحلہ میں ہے، ہم جل چکے ہیں لیکن پکے نہیں۔ بلوچ کو اپنی جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے ابھی کافی کوشش کرنی ہوگی۔

وہ یہ بھی واضح کرتے تھے کہ اس بات کی وضاحت لازمی ہے کہ کون کیا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ کون خون دے سکتا ہے کون پسینہ؟ قومی تحریک کے ملٹی ڈائمنشنل ہونے کو لازم قرار دیتے ہوئے وہ مسلح جدوجہد کو سب سے موثر ذریعہ قرار دیتے تھے۔

بابا مری بلوچ قومی جدوجہد میں اتحاد کی اہمیت پر بہت سنجیدہ تھے، انہوں نے بلوچ قومی لیڈروں کو ایک مشترکہ سپریم کونسل کی تشکیل کا مشورہ بھی دیا تھا، جو تحریک کے مسائل کو حل کرتے ہوئے تحریک کو مزید منظم کرسکے لیکن ان کے سنجیدہ تجاویز پر عمل کرنے کی بجائے ان پر الزامات لگائے گئے۔

بابا مری کا روشن کردار ایک ادارہ ہے، جس سے بلوچ قوم آزادی کا سبق سیکھ رہا ہے۔ بابا مری کے فکر و فلسفہ پر گامزن ہوکر بلوچ جہدکار نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اور آج ریاست بابا مری کے فکر و فلسفہ کے خلاف ہر طرح کے ہتکھنڈے آزما رہا ہے لیکن درسگاہ آزادی کا فلسفہ مزید قربانیوں کیساتھ توانا ہمارے سامنے ہے۔

اب یہ بلوچ قیادت و بلوچ جہدکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی کیساتھ بابا مری کے تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کی اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کس طرح کرواتے ہیں۔

بابا جاگ گئے تھے، وہ باشعور تھے۔۔۔
ہمیں بھی جاگنا ہے اسی طرح ہم اس شعور کو پاسکتے ہیں جس میں بلوچ قوم کی نجات ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔