خضدار ریلی کے تناظر میں – آصف بلوچ

737

خضدار ریلی کے تناظر میں

تحریر: آصف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جذبہ ہمیشہ آپ کو منزل تک پہنچنے کی درست سمت و راہ دکھاتا ہے، رکاوٹیں دور کرتا ہے، راہ کی نشیب و فراز اور ناہمواریاں ہموار کردیتا ہے۔ اس کی قدر کیجئے یہ کبھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ مایوسی پھیلانے کے بجائے عملی جدوجہد کا حصہ بنیں اور دانشورانہ موشگافیوں کے ذریعے لوگوں کو مایوس، خوف زدہ اور دہشت زدہ کرنے کے بجائے انہیں ظالم کے خلاف بولنے کا حوصلہ دیں۔ عملی جدوجہد کا حصہ بنیں، اگر جدوجہد کا حصہ نہیں بن سکتے، پھر آپکی قلمی جگالیاں یخ بستہ کمرے میں بیٹھ کر بےجاء تنقید، ذہنی و قلمی عیاشی کے سواء اور کچھ نہیں۔

نقصان حقیقت بیان کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ سچ اور حقیقت کو چھپانے، منافقت، دوغلا پن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 8 جون کو خضدار میں برمش یکجہتی کمیٹی خضدار کے جانب سے واقعہ ڈھنک کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی اور ریلی کے شرکاء نے ریلی کو ذاکر مجید سے منسوب کیا کیونکہ 8 جون ذاکر کی جبری گمشدگی کا دن بھی ہے۔ اس دن 11 سال قبل ذاکر کو لاپتہ کیا گیا تھا۔ خضدار ذاکر کا آبائی علاقہ ہے، اگر ذاکر سے اظہار یکجہتی کیا گیا، اس کو کیوں سخت موقف سے تعبیر کرکے نوجوانوں کو ڈرانے، دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جاری ہے؟ اور لکھنے والے موصوف کا تعلق اس قبیل سے ہے جو بلوچ قومی سوال سے انکاری ہے۔ یہ لاہور کے لیفٹ سے متاثر وہ لوگ ہیں، جو کبھی بھی ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکے، اسکی واضح مثال فیمنسٹ، سوشلسٹ لاہور میں برمش سے اظہار یکجہتی کے لئے صرف پانچ زندہ ضمیر افراد کا احتجاج تھا۔ یہ ذاکر کے ذکر سے خوفزدہ اس لئے بھی ہے کہ ذاکر بلوچ نیشنلزم کا مضبوط دیوار تھا، ذاکر کے نام سے بلوچستان میں ریت کی ٹیلوں پر کھڑے لاہوری سوشلسٹوں کا دھڑام سے گرنے کا خطرہ بھی ہے۔

یہ حلقہ، بانی جدید بلوچ نیشنلزم میر یوسف عزیز مگسی کو بھی لیفٹ کی سیاست سے جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور گل خان نصیر کی قوم پرستانہ سیاست میں خدمات سے نظریں چرا کر انہیں صرف ادب تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو موقف اس لئے بھی سخت محسوس ہوئی کہ اتنے ظلم و جبر، قتل و قتال کے باوجود جب خضدار کے نوجوان اٹھے تو نیشنلزم کا جھلک واضح تھا اور اس مخصوص حلقے کو خوف سخت موقف سے نہیں بلوچ نیشنلزم سے ہے۔ یہ ایک مخصوص سرکل اور ذہنیت کے کچھ لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ وہ عملی طور پر کچھ نہیں کریں لیکن گھر میں بیٹھ کر تحریکوں کو لیڈ کریں، طبقاتی تفریق پیدا کریں اور اپنے بیانیہ کو دیگر تنظیموں پر تھونپیں۔

میرے رائے کے مطابق یہ کچھ Opportunistic ہیں جو حالات و واقعات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ حلقوں میں یہ بھی چہ میگوئیاں و سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ اس برمش تحریک کو ایک پارٹی کی شکل دیں، کیا برمش کو انصاف دلانے کے لئے بھی ایک پارٹی کی تشکیل ضروری ہے؟ کیا ہر ایک ایسے واقعے پر پارٹی تشکیل دے کر تحریک چلائی جائے گی؟ ایسا ممکن نہیں اور یہ ناممکنات میں شامل خیالات ہیں۔

برمش یکجہتی کمیٹی خضدار پر نشتر بازی کیوں؟ وہ کونسے نعرے ہیں جن پر کئی سو کلومیٹر دور بیٹھے صاحبان خفاء ہورہے ہیں اور ان کا برمش تحریک میں عملی کردار اور حصہ کیا ہے؟ یہ اعتراض اٹھانے والے نہ وڈھ کے مظاہرے میں نظر آئے، نہ نصیر آباد کے مظاہرے میں، نہ خضدار اور کوئٹہ میں شامل تھے، عملی کردار اور حصہ صفر ہے لیکن حق پورا رکھتے ہیں کہ نعرے، تقاریر ان کی مزاج کے مطابق ہوں، ان انقلابی حضرات کو فیس بک اور ٹیوئٹر سے نکل کر عملی میدان کا حصہ بننا چاہیئے، سرفیس پر آکر لیڈ کرنا چاہیئے، اگر عملی حصہ دار نہیں بن سکتے تو انہیں کسی تحریک اور احتجاج کو مس لیڈ کرنے کا حق بھی نہیں۔

آخر میں برمش یکجہتی کمیٹی خضدار سمیت پورے بلوچستان کے لئے یہ پیغام ہے کہ ایسے لوگوں کی تنقید اور غیر ضروری تجزیوں پر بلکل کان نہ دھریں بلکہ اپنے صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں، مایوس نہ ہوں بلکہ خود اپنے غلطیوں سے سیکھیں، آپس میں بیٹھ کر خوبصورتی سے اپنے تمام کامیابیوں اور ناکامیوں پر نظر ڈالیں، بحث کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جو دراڑیں ڈالنے اور اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں پہچانیں انکی نشاندہی کریں اور ان سے دور رہیں۔ یہ یاد رکھیں متحد ہوئے بغیر کامیاب ہونا مشکل ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔