خاکی سرخے ۔ شہیک بلوچ

667

خاکی سرخے

تحریر۔ شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد کو dilute کرنے اور اسے ہائی جیک کرنے کے لیے ریاست کے مختلف مہروں میں ایک مہرہ لیفٹ کی سیاست کا بھی ہے۔

اس حوالے سے ایک دانشور نے بہت خوبصورت جملہ لکھا تھا کہ “کیا ہو اگر میں آپ کو بتاوں کے رائٹ اور لیفٹ دونوں ایک ہی عقاب کے پر ہیں۔” میں اس دانشور کی بات میں اتنا اضافہ ضرور کرونگا کہ ان پروں کے نیچے خونی پنجے بھی ہیں جن سے وہ محکوموں کو نوچتا ہے۔ پاکستان کی خاکی سوشلزم پنڈی مارکہ ہے اس میں محنت کشوں کے نجات کے بجائے استحصالی نظام کا استحکام ہے۔

قومی سوال پر نہایت ہی گمراہ کن وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں اور اکثر کوشش یہی کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے حاوی ہوکر تحریک کو ہائی جیک کیا جائے۔

ان کی باتوں میں انقلاب چند گز کے فاصلے پر نظر ضرور آتا ہے لیکن عملی میدان میں ان کی جگہ سوالیہ نشان ہی ہوگا۔ عملی میدان میں ان کے پاس حیلے یا بہانے ہزار ہونگے۔ پاکستان جیسی نیو کولونیل اسٹیٹ میں یہ مظلوموں کی جدوجہد کو سپورٹ کرنے کے بجائے اسے فاشزم جیسے الزامات لگا کر نجانے کس انقلاب کی آس و امید لگاتے ہیں۔

بلوچ قومی سوال ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے، وہی بلوچ قومی تاریخ میں کہیں یہ مثال نہیں ملتی کہ بلوچ شاونزم یا فاشزم کا مرتکب ہوا ہے البتہ کالونیلزم کے خلاف جدوجہد بلوچ تاریخ کی واضح حقیقت ہے لیکن بلوچ قومی سوال کی حقیقت کو دانستہ طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ریاستی بیانیہ کو سپورٹ کیا جاتا ہے۔

بلوچ قومی جدوجہد کے پس منظر میں نوآبادیاتی نظام نے جس جبر کا مظاہرہ کیا اس پر کسی بھی قسم کا واضح احتجاج نہیں کیا گیا لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ جب بلوچ جہدکار نوآبادیاتی منصوبوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تب نام نہاد سوشلسٹ محنت کش کے نام کی آڑ میں نوآبادیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔

ایک جنگ زدہ خطے میں کیا محض اس بنیاد پر منصوبوں کو تکمیل کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ اسے مزدور بنا رہے ہیں؟ کیا مزدور استحصالی نظام کا کل پرزہ بن کر قابل قبول ہے؟ بلوچ قومی جدوجہد نے بلاتفریق ان عناصر کو روکنے کی کوشش کی جو نوآبادیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے برسرپیکار تھے لیکن ان نام نہاد سوشلسٹ انقلابیوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟

وہ تو واضح طور پر ریاستی اداروں کا حصہ ہیں، جو ایک غیر نصابی سرگرمی کے طور پر انقلاب کو لے کر ذہنی مشت زنی کرتے ہیں۔

این جی اوز میں کثرت سے پاکستانی سوشلسٹ آپ کو ملینگے لیکن ان کے علم و عمل میں بلا کا تضاد آپ کو ملیگا۔ واضح طور پر شائیزوفرینیا (علم و عمل میں تضاد) کا شکار ہیں جو اپنے عمل کی اصلاح نہیں کرسکتے وہ سماج میں بھلا کیا تبدیلی لائینگے یا کیا کسی تحریک کو جنم دینگے۔

جبکہ دوسری جانب بلوچ جہدکار جس کا عمل بالکل واضح اور شفاف ہے جو جدوجہد کے سخت سے سخت مراحل میں مستقل مزاجی سے تحریک کو اگے بڑھا رہا ہے جس کے علم و عمل میں ربط ہے اور وہ نوابادیاتی منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ اس خطے میں فکری ارتعاش بلوچ جہدکار کی قربانیوں کا ثمر ہے جس کے اثرات ہم سندھی و پختون پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔

بلوچ انسانیت دوست قوم ہے اور ہر اس قوم کے دکھ میں شریک ہے جو جبر کے خلاف برسرپیکار ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلوچ جدوجہد کو کوئی آسانی سے ہائی جیک کرسکے گا بلکہ یہ جدوجہد بلوچ اپنے سیاسی شعور کی بنیاد پر خود ہی جاری رکھے گا۔

شروع میں ہمدردی جتا کر اندر گھسنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب یہ کوششیں ناکام ہوتی ہے تب اصل چہرہ سامنے آجاتا ہے تب اسی تحریک کو فاشسٹ قرار دے کر نئے نئے جتن کئے جاتے ہیں۔

ایک مقامی گروپ حالات کیساتھ نہایت چالاکی سے چلتے ہوئے کبھی کاسترو و چے گویرا کے اوپر تصانیف لکھ کر ساتھ میں ارٹ آف وار جیسے کتابوں کا ترجمہ کرکے مقبولیت حاصل کرنا چاہتے تھے، وہیں جب جبر کی شدت میں اضافہ ہوا تب ان کے لیے میرغوث بخش بزنجو صاحب کی مصلحت پسندی آئیڈیل بن گئی۔ وہ اب کہتے ہیں کہ بی ایس او کو بلوچ کی جگہ بلوچستان اسٹوڈنٹس میں تبدیل کردینا چاہیے، ان کے لیے ایسا ممکن ہوگا کیونکہ وہ بلوچ قومی تحریک کے تاریخی پس منظر کو نظر انداز کرکے جس موقع پرستی کو فروغ دے رہے ہیں لیکن وہ نوشتہ دیوار بھی ضرور پڑھ لیں کہ اگر ان کو اس بات کا ایقان ہے کہ بی ایس او اپنی طبعی عمر مکمل کرچکا ہے تو وہ اپنا کوئی بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کیوں تشکیل نہیں دیتے؟

سمو راج موومنٹ جیسی جگ ہنسائی تو پہلے بھی کرچکے ہیں چنانچہ ایک اور سہی۔

یہ صرف انفرادی نمود و نمائش کے دلدادہ ہیں اور ان کو بلوچ قوم یا بلوچ کاز سے کوئی ہمدردی نہیں۔ آج تک بلوچ کے سلگتے مسئلے پر ان کی کوئی تحریر کس نے پڑھی ہے؟
(کہور خان جیسے ٹوپی ڈراموں کے ذریعے نئی پارٹی کے قیام جیسے لطیفے زیر بحث نہیں)

آخری تجزیہ میں بلوچ جدوجہد خالصتاً نیشنلزم کی بنیاد پر استوار ہے اور اسی نیشنلزم میں ہی بلوچ کی نجات ہے، بلوچ قومی جدوجہد کو منافقانہ سوشلسٹوں کی ہمدردی نے نقصان زیادہ پہنچایا ہے، ایک بلوچ دانشور کے بقول جس ماو، چین یا سوویت یونین کے بیج بلوچ رہنما اپنے سینوں پر لگاتے تھے، اسی چین کی گولیوں سے بلوچ کے سینے چھلنی ہورہے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کا مفاد ہمارا اولین ترجیح ہے جس کے لیے اپنی تحریک کو خاکی سرخوں کے نرغے سے بچانا لازم ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔