حقیقت
تحریر: زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو ہر روز ہر موڑ پہ زندگی ہمیں نئے نئے معنوں سے روشناس کراتی ہے۔ ہر روز ابھرنے والے واقعات ہمارے یاداشت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف ہر روز ایک سچائی کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایک نئے جھوٹ کو پیدا کیا جاتا ہے جسے لوگوں کے ذہن میں اس طرح پیوست کیا جاتا ہے کہ اس سے بڑی سچائی اور کئی وجود ہی نہیں جسے آفاقی سچائی بھی گردانا جاتا ہے اور وہ آفاقی جھوٹ جسے سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ ایک ایسے سچائی کا قتل کرتی ہے جسے دنیا کا کوئی قانون ٹھکرا نہیں سکتا۔
ہر قدم پہ ایک نئے سچائی کا سامنے کرنے کے بعد ہی انسان اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کر پاتا ہے کیونکہ چھوٹی چھوٹی سچائیاں مل کر ایک آفاقی سچائی کو جنم دیتی ہے جو سب کے لئے (کل) کے لئے ہوتی ہے، جسے قدرت کا کوئی قانون جھٹلا نہیں سکتا۔ یوں کبھی کبھار ہمیں ایک مضبوط پالیسی کے تحت الجھایا جاتا ہے۔ اس عمل کا ایک فائدہ ہمیشہ سامراج ہی کو ہوتا ہے کہ وہ ایک زمین ایک خطہ ایک قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ایک علاقائی سچائی و جھوٹ کا گیم کھیل کر قومی سچائی کے راستہ میں گامزن جہد کو کام کو وقتی طور پر سست رفتاری کا شکار کرنا چاہتا ہے۔
آج کا دشمن اپنے ادب، کلچر، نام نہاد ترقی، دانشوروں، لیفٹسٹ و دیگر نت نئے طریقوں سے علاقائی سطح میں کنفیوژن پیدا کرکے قومی کاز کو نقصان پہنچانے کے درپے اور ہہی عمل بلکہ روز اول سے جاری و ساری ہے حال میں اٹھنے والے واقعات کے تناظر میں ہم نے دیکھا کہ ایک قومی غم و غصّے کا لہر پورے بلوچ قوم میں ابھرا اور اب اسے نام نہاد سیاسی پارٹیز کے سیاست کے ذریعے کیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیچ سے لیکر کراچی تک، گاڑو سے لے کر راجن پور جہاں بلوچ اپنے ہونے کا ثبوت روز اول سے دئے جاریا ہے وہی پارلیمانی پارٹیوں کے ذریعے عوامی تحریک کو ایک سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ان ہی کی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کا راز آسانی سے پاش نہ ہو سکے۔
مگر بلوچ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ کس لئے کیونکر وجود میں لائے گئے اور کون کون انکی سرپرستی کررہا ہے۔ کئی سرکاری سردار تو کئی سرکاری ملا و واجہ تو کئی سرکاری کٹھ پتلی سیاست دان۔ جن کے پاس ایک چرب زبان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اور اس حقیقت سے خضدار سے لے کر ہر بلوچ علاقے اور ہر بلوچ اس حقیقت سے واقف ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کا کیا کام ہے اور کیونکر ہے ۔ کیونکہ قومی تحریک کو اسکے اپنے زمیں میں تنگ کرکے دشمن اس پالیسی پہ عمل پیرا ہے کہ وہ شاید اپنے پیدا کردہ غنڈوں کے ذریعے اور عوامی سطح پہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرکے قومی تحریک کو نقصان پہنچا سکتا ہے اس کا واضح مثال آج کا پنجگور، خضدار، تربت و پسنی کے آس پاس کے علاقے ہیں جہاں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے عوامی سطح پہ خوف وہراس پھیلا کر قومی تحریک سے عوام کو disconnect کرنے کی بے جا کوشش کیا جارہا ہے۔
جسٹس فار برمش کی آواز نے پورے بلوچستان کو ایک پھر روڈوں پہ نکلنے پہ مجبور کردیا۔ کالونیل ریاستوں کی سب بڑی بدمعاشی ڈیتھ اسکواڈز کی ترویج رہی ہے، مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں کے سامنے لاکھڑا کرنا، کالونیل ریاستیں جب کبھی ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل کرتے ہیں تو جرائم پیشہ افراد ہی ان کا ہر اوّل دستہ ہوتا ہے جرائم پیشہ افراد کی سب بڑی طاقت ریاستی ادارے بنتے ہیں جرائم پیشہ افراد ڈیتھ اسکواڈز کا حصہ بن کر نہ صرف مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں بلکہ منشیات فروشی و ڈکیتی اور اسمگلنگ ان کا ذریعہ معاش بنتا ہے، سب سے پہلے جن علاقوں میں یہ سرگرم ہوتے ہیں وہاں طاقت کا توازن ریاستی اداروں کے ذریعے اپنے حق میں کرلیتے ہیں پھر ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں ان کے در پہ حاضری دیتے ہیں کبھی ڈھکے چھپے تو کبھی برملا سیاسی جماعتوں (یہاں نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی ) کا ان پہ ان کا ہاتھ رکھا ہوتا ہے یہ اب صرف ڈنک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ بلوچستان کے کونے کونے میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کا قیام اور انکی سرپرستی اب قومی مسئلہ بن چکا ہے، جس کے خلاف احتجاج بلوچستان کے ہر شہر میں “جسٹس فار برمش “ کی صورت شروع ہو چکا ہے اور آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔