حسیبہ کے آنسو – چیدگ بلوچ

629

حسیبہ کے آنسو

تحریر: چیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ آنسو بے معنی نہیں بلکہ اس کے پیچھے درد و تکلیف سے بھری کہانی ہے، مگر یہ صرف کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے جس نے اس بہتے آنسو کو دنیا کے سامنے آشکار کیا، دنیا اسے کیسے محسوس کرتا ہے مجھے نہیں معلوم پر اس درد و غم کو وہ اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں، جو اس کرب سے گذر رہے ہیں۔

گذشتہ آٹھ جون جو بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کے لاپتہ ہونے میں گیارہ سال مکمل کی مناسبت کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں کئی لاپتہ بلوچ فرزندوں کے لواحقین نے شرکت کی اور اپنے دکھ درد بیان کئے۔

ان میں سے ایک حسیبہ قمبرانی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جہاں وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بھائی محمد حسان قمبرانی و کزن حزب اللہ قمبرانی کے بازیابی کیلئے فریاد کرتی ہے، محمد حسان اور حزب اللہ کو 14 فروری 2020 کو خفیہ اداروں کے اہلکار اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔

اس سے پہلے بھی حسیبہ کے بھائی گزین قمبرانی اور کزن سلمان قمبرانی کو 2015 میں خفیہ اداروں کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے پھر 2016 کو گزین اور سلمان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں، حسیبہ اپنے ان بھائیوں کی طرح حسان و حزب اللہ کو کھونا نہیں چاہتی، جس کیلئے وہ سراپا احتجاج ہے، رو رہی ہے، فریاد کر رہی ہے، انصاف مانگ رہی ہے۔

حسیبہ قمبرانی کی یہ ویڈیو دل دہلا دینے والی تھی، جس نے ہر دل کو جھنجوڑا، کیفیت کے شکار لوگوں کو کم از کم وقتی طور پر ہی صحیح مگر یہ محسوس کرایا کہ بلوچستان اپنے بچوں کو یزیدوں کے ہاتھوں کھو رہا ہے۔

رنج و غم کا یہ عالم کوئی کوئی برداشت کر سکتا ہے، ورنہ کئی تو صدمے میں دم توڑ دیتے ہیں، بیچ راستے میں چھوڑ دیتے ہیں، آنکھ کھول کر دیکھو یا پھاڑ کر مگر دل کی آنکھوں سے ضرور دیکھنا اور یہ تصور کرنا کہ حسیبہ کے بھائیوں کی جگہ میرے بھائی ہوتے تو کیا گذرتا مجھ پر یا میری فیملی پر؟

ہاں یہ حقیقت ہے کہ آج پورا بلوچستان اس کرب سے گذر رہا ہے، جہاں کئی حسیباؤں کے بھائی چھینے گئے ہیں، جہاں مائیں اپنے بچوں کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے کوچ کر جاتی ہیں، بہنیں اپنے بھائیوں کی جدائی کے غم میں ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کر لیتی ہیں۔

آج صرف ایک فیملی کی بات نہیں رہی بلکہ یہ سنگین انسانی المیہ یا یہ آگ بلوچ قوم کی نسل کشی ہے جو بلوچستان میں قبضہ گیر کی پالیسیوں کا اہم حصہ ہے، اگر آپ کے احساسات حسیبہ کے حق میں ہیں تو آپ بلوچستان کی تکلیف محسوس کر سکتے ہیں۔

اس احساس کو مدنظر رکھ کر بلوچ فرزندوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے، یہ آنسو، یہ درد و رنج کا مقام، تکالیف کی یہ آگ اور یہ کربلا کا میدان اگر مزاحمت کی نصیحت نہیں کرتا ہے تو کیا “کھا، پی اور مزے کر” کہتا ہے؟ وہ لوگ جو خاموش ہیں ان کیلئے بھی تاریخ ہے، ان کیلئے تاریخ کا وہ حصہ ہے جو قہر سے بھر پور ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔