حسیبہ قمبرانی کے ڈراؤنے خواب اور ہماری بیٹیوں کی میٹھی نیند
تحریر: حاشر ابن ارشاد
دی بلوچستان پوسٹ
والٹر ڈی لا میئر کی نظم کا کردار آواز لگاتا ہے ”اسے کہنا کہ میں آیا تھا، اور کسی نے جواب نہیں دیا۔ اسے کہنا کہ میں نے اپنی بات کا پاس رکھا تھا۔“
سننے والے سنتے ہیں اور کہیں کوئی چاپ نہیں ابھرتی۔ ساکن گھر کے دروازے سے یہ آواز بہت سی دستکوں کی طرح ٹکراتی ہے لیکن کہیں کوئی چاپ نہیں ابھرتی۔ آواز دینے والا لوٹ جاتا ہے۔ سننے والا اب بھی یہیں ہے لیکن وہ بولتا نہیں ہے۔
میں اس آسیب کا سوچتا ہوں جس میں آوازیں کھو جاتی ہیں۔ میری آواز، تمہاری آواز، ہماری آوازیں۔ میں اس گہرے اندھیرے کا سوچتا ہوں جس میں صرف ہیولے نظر آتے ہیں لیکن ان کی پہچان ممکن نہیں رہتی۔ میں اس بھاری قفل کا سوچتا ہوں جس کی چابی شاید کھو گئی ہے۔ اس دروازے کا سوچتا ہوں جس پر دستک دینے والوں کے ہاتھوں کے خون آلود نقش اب سیاہ پڑ گئے ہیں۔
میں بھی شاید والٹر ڈی لا مئیر کے گھڑ سوار کی طرح لوٹ جاتا لیکن میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے، میری ٹانگیں تھکن سے کانپتی ہیں اور میرے پاس واپسی کے راستے کا کوئی نشان نہیں ہے کیوںکہ یہاں تک لانے والوں نے کہا تھا کہ وقت میں صرف ایک ہی سمت ہوتی ہے۔ پیچھے دیکھ تو سکتے ہیں، مڑ نہیں سکتے۔ سو مجھے اپنی دستک کی امانت کا بار اٹھانا ہے یا اسے اس دروازے کے پیچھے سننے والوں کے سپرد کرنا ہے۔ لیکن وہ تو جواب دیتے نہیں ہیں۔
میں سانس لینے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میرا سینہ بھاری ہوتا چلا جاتا ہے۔ میرے پیر زمین پر ہیں لیکن میرا چہرہ زیر گرداب ہے۔ اب میری سانس رکنے لگی ہے۔ میں چیخنا چاہتا ہوں لیکن چیخ بھی سانس کے ساتھ اندر قید رہتی ہے۔ ایک، دو، تین، چار۔ ۔ ۔ اور پھر میں اٹھ بیٹھتا ہوں۔ میرا جسم اے سی سے یخ ہوئے کمرے میں بھی خوف سے نم ہے۔ میں سانس لیتا ہوں، اپنے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں زندہ ہوں۔ یہ بس وہی خواب تھا جو میری پرانی عادتوں کی طرح میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ میرے اکثر خواب ایسے ہی بیہودہ ہیں۔ لیکن میں نے کبھی کسی سے ان کی تعبیر نہیں پوچھا کیونکہ ایسے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ یہ سب اندھے کنووں کے خواب ہیں جن کے اوپر سل دھر دی گئی ہے۔ نیچے پاتال ہے اور اوپر آسمان دیکھنے کا کوئی چارہ نہیں ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میں ایسے خواب کیوں دیکھتا ہوں۔ ان خوابوں کے منظر نامے بدل جاتے ہیں لیکن سب میں بے بسی مشترک رہتی ہے۔ میرے خواب موت کے خواب ہیں۔ ان خوابوں میں ایک آسیب ہے، ایک دیو کا سایہ ہے، ان میں عفریت پھنکارتے ہیں، ان میں رات بسیرا کرتی ہے۔ اس دہشت، اس لاچاری، اس بے بسی کا کوئی انت نہیں سوائے اس لمحے کے جب اس کی انتہا پر میں جاگ جاتا ہوں۔ اپنے آپ کو ٹٹولتا ہوں۔ اپنے بچوں کے کمرے کا دروازہ کھول کر ان پر نظر ڈالتا ہوں۔ سب کو اپنی جگہ پاتا ہوں۔ تو سانس آہستہ آہستہ ٹھکانے پر آ جاتا ہے۔
کبھی کبھی ان منحوس خوابوں سے جاگنے کے بعد کچھ اور واہیات خیال مجھے گھیر لیتے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر کوئی نرک ہے تو وہ بس ایسا ہی ہوگا۔ ایک ایسا ہی شدید بے بسی کا عالم جس سے جاگنے کا کوئی انتخاب نہیں ہو گا۔ خواب سے جاگے بھی تو ایک اور خواب میں جاگیں گے۔ اور ازل سے ابد تک ان خوابوں کا ایک تار بندھا ہو گا جس پر ہم ہر لمحہ جئیں گے، ہر لمحہ مریں گے۔ عذاب ایسے ہی ہوتے ہوں گے۔ میں موت سے نہیں ڈرتا، موت کے بعد کی زندگی کے خیال سے ڈرتا ہوں۔ میں ہر اس موہوم امکان سے ڈرتا ہوں جس میں ایسے خواب کی کوئی بھی بشارت ہو۔ میں اس لیے زندگی کے اختتام کو فنا کا لمحہ مان کر مطمئن ہوں۔ میرے لیے اس سے بہتر کوئی اور تفہیم نہیں ہے۔
پر رکیئے، کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ دو روز پہلے اسی اطمینان کے ایک لمحے میں حسیبہ قمبرانی کی سسکیاں گونجیں تو میری جاگتی آنکھوں کو لگا کہ گویا خواب سے اٹھ کر میں نے اپنی بیٹی کے کمرے کا دروازہ کھولا ہے اور وہ وہاں نہیں ہے۔ میرے جاگنے کی قیمت پر میری بیٹی اب خواب دیکھ رہی ہے۔ ایک ایسا خواب جس میں ایسا اندھیرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا، جس میں تیز ہوا کا شور ہے، بھاری دروازے پر پڑا ایک قفل ہے جس کی کنجی کھو گئی ہے، میری بیٹی کے پیروں میں آبلے ہیں اور دروازے پر اس کے ہاتھ کے خون آلود نقش سیاہ پڑتے جا رہے ہیں۔ وہ روتی ہے، گڑگڑاتی ہے، ہاتھ جوڑتی ہے، شاید اپنے بھائی کو ڈھونڈتی ہوئی، شاید اپنے باپ کی تلاش میں، اور سننے والے سب خاموش ہیں۔ میں جاگ رہا ہوں لیکن میری بیٹی کا خواب ازل سے ابد تک ایک رسی کی طرح تنا ہے اور وہ جاگ نہیں سکتی۔ اس کی ٹانگیں تھکن سے کانپتی ہیں لیکن دستک دیے جانے کے علاوہ اس کے پاس کوئی رستہ نہیں ہے۔
دل میں سوچتا ہوں کہ کاش یہ بھی خواب ہو، کاش میں پھر سے جاگ سکوں۔ پھر کان میں کوئی سرگوشی کرتا ہے، تم جاگتے ہو، سانس بھی لیتے ہو، تمہاری بیٹی اب بھی اپنے کمرے میں مامون ہے۔ اس لیے تم چپ ہو۔ اس لیے تم چپ رہو گے۔ کچھ خداؤں کے پاس کچھ بیٹیوں کے لیے صرف یہی عذاب ہے، جس سے لوٹ جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور خداؤں سے کون الجھ سکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔