حالیہ احتجاج، سیاسی جماعتیں، اور بلوچ دانشور
تحریر: حمل کبیر
دی بلوچستان پوسٹ
انتونیو گرامشی بیسوی صدی کے اطالوی مارکسسٹ تھے، جنہوں نے مارکسزم کے کچھ اصولوں کی الگ طریقے سے تشریح کرنے کی کوشش کی۔ انہیں آمر مسولینی کے دور میں گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ مسولینی کے لیے خطرہ تھے۔ جیل میں رہنے کے دوران انھوں نے ٹشو پیپر پر سیاست، تھیوری، معیشت، نظریہ، معاشرہ، اور مختلف قسم کے مظامین لکھے جنھیں وہ چپکے سے باہر بھیجتے رہے. گرامشی کی موت کے بعد ان مظامین کو “پرزن نوٹ بکس”، “Prison Notebooks” کے نام سے چھاپا گیا.
اوپر لکھے گئے حصے کا مقصد گرامشی کے اس ایک جملے پہ زور دینا تھا کہ “معاشرے پہ مسلط کیے گئے تسلط یعنی Hegemony کو ختم کرنے میں سب سے اہم کردار دانشور کا ہوتا ہے۔ دانشور عوام کو وہ سمجھاتا ہے جو عوام عام حالت میں نہیں سمجھ سکتا۔”
برمش کمیٹی شال کی جانب سے ٢١ جون کو دازن واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا، یہ دوسرا مظاہرہ تھا، پہلا مظاہرہ سانحہ ڈنک کے خلاف چند روز قبل منعقد کیا گیا تھا. بہرحال میں ان دونوں احتجاجوں میں شریک رہا. دوسرے احتجاج میں پہلے کی نسبت زیادہ سیاسی پارٹیوں کو مدعو کیا گیا تھا، جن میں بی این پی (مینگل)، این پی، اور این ڈی پی، پیش پیش تھے. پارٹیوں کے طلبا ونگ کے ساتھی بھی شریک تھے. ریلی پریس کلب سے نکالی گئی جو جناح روڈ سے نعرے لگاتے ہوئے واپس پریس کلب کے سامنے آکے بیٹھ گئی. سیاسی رہنماوں نے خطاب کرنا شروع کیا.
بی این پی (مینگل) کے کارکن جاوید بلوچ نے کافی جذباتی تقریر کی، وہ جذبات میں اس قدر بہہ گئے کہ انہوں نے پارٹی قائدین کی تعریفوں کے ساتھ ساتھ بابو نوروز کو بھی پھانسی پہ لٹکا دیا. ایسے ہی جذباتی نیشنل پارٹی کے نیاز بلوچ بھی نظر آئے، انہوں نے بھی ڈاکٹر مالک کے نیک کام گنوائے. نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈاکٹر حئی بلوچ بھی کافی ناراض تھے. بہرحال، لوگ تالیاں بجاتے رہے اور داد دیتے رہے. ان کے بعد نواب اسلم رئیسانی آئے، انھوں نے بھی لعن تعن کی اور بیٹھ گئے. بعد میں انھوں نے انٹرویو دیتے ہوے احتجاجیوں کے کم تعداد کا گلہ کیا، اور خواہش ظاہر کی کہ بیس لاکھ لوگ جمع ہونے چاہئے تھے.
میں بیٹھے بیٹھے ماضی کو یاد کرتا رہا تو مجھے وہ دن یاد آئے جب لوگ اپنے گمشدہ گاڑیوں کو تلاش کرتے کرتے نواب صاحب کے گھر تک پہنچ جایا کرتے تھے اور وہاں کبھی کبھار گاڑیوں کی چابیاں مل بھی جایا کرتی تھیں. مجھے اس دور میں اغوا برائے تاوان کے بےشمار قصے یاد آئے، مجھے توتک کے اجتماعی قبریں یاد آئے. مجھے پھلتے پھولتے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے یاد آے.
خیر، باتیں ہوتی رہیں، تالیاں بجتے رہے، ان نمائندوں کی باتوں کو سننے کے بعد بس اتنا خیال آیا کہ کاش آج صباء یہاں ہوتے تو یہ لوگ یہاں نہ ہوتے.
بہرحال، احتجاج کے دوران مجھے کوئی بلوچ دانشور نظر نہیں آیا. وہ غائب تھے. حالانکہ ٢١جون کا احتجاج تو ایک سانحے کے خلاف تھا تو چھپنا کیونکر؟ البتہ مجھے ایک بات کی سمجھ ہے کہ باتیں کرنے میں اور پسینہ بہانے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے. لیکن جو بھی ہو ہمارے آج کے دانشور پہ بڑی ذمہ داریاں ہیں، اور اگر کچھ نہیں تو بس اتنا ہی سمجھا دیں کہ ہر بات پہ تالیاں نہیں بجایا کرتے.
مزید برآں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مجھے برمش کمیٹی کے اس “آل پارٹیز” طرز کے مظاہرے کی سمجھ نہیں آئی، ان پارٹیز کے نمائندے، جن کی ذمہ داری اسمبلی میں بولنے کی ہے، یہ وہیں پہ بولیں، بحث کریں، قانون سازی کریں.
احتجاج کے آخر میں ماما قدیر نے نواب اسلم رئیسانی سے گرینڈ جرگہ بلانے کا مطالبہ کیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ماما اب تک ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں! جن لوگوں سے معصوم بچوں کے آنسووں پر سیاست کرنے کا احتساب کرنا ہے، ان سے اپنائیت کیسی۔
ماما کی قربانی عظیم ہے. انھوں نے جہاں گیارہ سال گمشدہ افراد کے بازیابی کے لیے جدوجہد کی ہے وہاں ہم جیسے گیارہ دن بھی نہ بیٹھ سکیں. ماما اپنے جہد کو آلودہ نہ کریں، احتجاج میں افسوس اس بات کا ہوا کہ پارٹیوں کی دوڑ میں شہید کلثوم پیچھے رہ گئیں. حالانکہ طلباء نمائندوں نے باتیں کیں، معصوم بچے نعرے بھی لگاتے رہے، مگر پھر بھی….
آخر میں، دانشوروں کو آگے آنا ہو گا. پسینہ بہانا ہو گا۔ راستہ دیکھ کے دکھانا ہو گا. نہیں تو ہم ہر جذباتی تقریر پہ تالیاں بجاتے رہیں گے اور ہر ڈھول پہ ناچتے رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔