جون 19 شہید میر عبدالخالق لانگو کی برسی – علی احمد لانگو

931

جون 19 شہید میر عبدالخالق لانگو کی برسی

تحریر: علی احمد لانگو

دی بلوچستان پوسٹ

19جون درد تکلیف اور تاریکی آشکار کرنے کادن ہے، جو ہر سال اپنی اصل شدت کے ساتھ سینوں کو تڑپاتا ہے۔ آج پھر 19جون ہے اور اسی کیفیت کو دہرا رہی ہے۔ 19جون 2001 کو بلوچستان کے قومی سیاست کے نامور و گراں قدر شخصیت میر عبدالخالق لانگو کو بھائی، کزن اور ساتھیوں سمیت مستونگ کے بھرے بازار میں شہید کردیا گیا۔ مستونگ جو امن کا,شانتی کا, علم کا, ادب کا, اوربلوچ سیاست کا موجد تھا۔ اس مستونگ کو خون میں رنگ دیا گیا اور ایک نظریاتی فکری رہنماء کو قوم سے جدا کیا گیا۔

کہتے ہیں کہ زندگی حقیقت ہے اور موت اٹل، برسوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جو موت کے بعد آخرت کی ہے۔ لیکن میں نے مشاہدے سے اور عملی طور پر جانا اور پرکھا ہے کہ ایک تیسری زندگی بھی ہے جو مخصوص افراد کو نصیب ہوتا ہے۔ اس تیسری زندگی کو نہ کوئی چھین سکتا ہے اور نہ کوئی مار سکتا ہے بلکہ وہ زندگی کو زندہ کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ شہید میر عبدالخالق لانگو بھی ان خوش نصیب شخصیات میں شامل ہے جو تیسری زندگی کو حاصل کرسکے ہے۔ جو تیسری زندگی کے زریعے زندگی کو زندہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جب تک دنیا قائم رہتی ہے انکی جدوجہد جاری رہیگی۔ زندگی کو مقصد یا زندگی کے مقصد کو سمجھنا ہر فرد کی بس کی بات نہیں۔ زندگی صرف ایک انسان کے زندہ رہنے کانام نہیں بلکہ زندگی سماج کے، قوم کے اور انسانیت کے زندہ رہنے کا نام ہے۔ سماج قوم اور انسانیت کو زندہ کرنے والے ہی تیسری زندگی پاتے ہیں۔ جو انصاف و برابری کی بنیاد پر سماج کی تشکیل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، جہاں ظلم و جبر اور استحصال کا خاتمہ ہو، ایسے شخصیات کو سماج ان کے رخصت ہونے کے بعد بھی محسوس کرتا ہے۔ اور اس کو تسلسل کے ساتھ اپنی بقاء کیلئے مثبت قرار دیتے ہیں۔ شہید میر عبدالخالق لانگو نے تمام عمر سماجی و طبقاتی ظلم و ستم و سیاسی معاشی ناانصافیوں کے خلاف اور قومی وقار و تشخص کو لاحق خطرات کیلئے جدوجہد کی اور انکی جدوجہد انکے شہادت کے بعد بھی زندہ ہے اور بلوچ قوم اس پر عمل پیرا ہے۔

کسی قوم کی خوشحالی، تعمیر و تربیت اور زندہ جاوید رہنے کے لئے تاریخ ایک حقیقت، اہمیت اور حیثیت رکھتی ہے۔ جو قوم ماضی کے نشیب و فراز، جرات بہادری، اتحاد و اتفاق نظم و ضبط قربانیوں، قیادت، فتح و شکست، جنگی محرکات و حکمتِ عملی، وفاداری و غداری کو یاداشت میں تازہ کر کے بہترین منصوبہ بندی جامع حکمتِ عملی کے ذریعے زیست کی جدوجہد میں شدت، سنجیدگی، پختگی منظم مضبوطی اور وژن کو پایہ تکمیل تک لے جانے کے لئے ذریعہ کامیابی کا بہترین شاہکار ہے۔

تاریخ اقوام کے تسلسل کے ساتھ جاری واقعات اور سچائی کا بہترین نمونہ و مجموعہ ہے۔ ہر قوم کی تاریخ میں کئی قسم کے واقعات کارفرما ہوتے ہیں وہاں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں، جس سے قوم کے اس وقت کے کوتاہیوں و خامیوں کو مدنظر رکھ کر ان کو دہرانے سے گریز کیا جاتا ہے، تو دوسری طرف ایسے قابلِ فخر و ذکر کارنامے اور محرکات ہوتے ہیں، جس سے قوم کی وجائیت، کمٹمنٹ نظر آتی ہے۔ جہاں جذبات، احساسات فکر و عمل نظریاتی طور پرقومی سانچے میں شامل ہوکر قومی مقاصد کے حصول کی جدوجہد پر عمل پیرا ہوتے ہیں، اور ان احساسات و جذبات کو شعور و آگاہی کے طور پر جھنجھوڑ کر جاندار کرنے کے لئے تاریخ سے بڑھ کر کوئی چیز سود مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی قوم کے مستقبل کی کامیابی کا انحصار صرف بہترین ماضی پر ہو، بلکہ اس کے لئے ماضٰی کو بہترین حکمتِ عملی اور نئے دور کے چیلنجوں میں ڈھال کر مستقل طویل اور کھٹن جدوجہد کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر تربیت دینا ہوتا ہے۔

بلوچ شعوری سیاست کی داغ بیل1920 میں میر عبدالعزیز کرد نے ینگ بلوچ کے نام کی تنظیم سے کیا، جس کو تقویت میر یوسف عزیز مگسی کے ملنے کے بعد ملا، بعداز پہلی بلوچ سیاسی جماعت انجمن اتحاد بلوچاں کا قیام عمل میں لایا گیا، میر عبدالعزیز کرد، میر یوسف عزیز مگسی، ملک فیض محمد یوسفزئی، ملک عبدالرحیم خواجہ خیل، بابو عبدالکریم شورش سمیت شعوری سیاست نے بلوچ قوم میں شعوری قومی سیاسی عمل کے نئی راہیں متعین کی۔ اور بلوچ قوم میں قومی احساس اجاگر کیا۔ اور اس احساس نے میر غوث بخش بزنجو، سرادر عطاء اللہ مینگل، گل خان نصیر، محمد حسین عنقاء نواب خیر بخش مری جیسے روشن خیال و جہاں دیدہ سیاست دان فراہم کئے۔ جنہوں نے ہر لحاظ سے قومی جدوجہد کو تقویت دی اور ساتھ ہی قومی وقار کو بلند رکھا۔ جیلیں، اذیتیں، سختیاں، سازشیں، جلاوطنی اور شہادتوں کی طویل فہرست ہے جو بلوچ قائدین نے قوم و سرزمین کیلئے دیئے، ملک میں آج بھی ان سیاستدان کی قدر و اہمیت و دانش کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ان عظیم شخصیات کا تسلسل ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، مولابخش دشتی، فدابلوچ خیرجان بلوچ غلام محمد بلوچ، حبیب جالب بلوچ ڈاکٹر مالک بلوچ، حاصل خان بزنجو، میر عبدالخالق لانگو سمیت دیگر شخصیات نے بھی میر یوسف عزیز مگسی و میر عبدالعزیز کرد کی شعوری سیاست کا تسلسل ہے۔ جن میں بیشتر تیسری زندگی کا حصہ اور زندہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

بلوچ قوم کی تاریخ میں جہدِ مسلسل، بہادری جرات و قربانی ہمیں بھرپور نظر آتی ہے لیکن دوسری طرف نااتفاقی، انتشار، قومی و سیاسی شعور کی کمی بھی ملتی ہے۔ قومی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے آپسی تنازعات، ناچاکیوں اور ناانصافیوں و پسِ پشت ڈھال کر عظیم تر قومی مفادات کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے اتحاد و یکجہتی اور ڈسپلن جیسے نمایاں اصولوں کو اپنا کرایک منظم اور قومی سیاسی شعوری جماعت کی ضرورت کوممکن بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ قومی حقوق کے دفاع اور سرزمیں کی حفاظت کو ممکن بنانے کے لئے ایک مکمل منظم جدوجہد اور قومی سیاسی شعوری جماعت ہی کرسکتی ہے، یہاں یہ امر قابل قابلِ ذکر ہے کہ بلوچ مخالف قوتوں نے ہمیشہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کے لیے سازشوں،منفی ماورائے قانون اقدامات کا سہارا لیا۔ ظلم و جبر اندوناک تاریخ کا رقم کرتے آرہے ہیں۔ لیکن ان کا مقابلہ بلوچ قوم سے ہے جو شہادتوں، قربانیوں اور عزم و حوصلے کا نام ہے۔

شہید میر عبدالخالق لانگو کی سیاسی زندگی زمانہ طالب علمی سے شروع ہوتا ہے۔ جب بلوچ طلباء 1920 کی شعوری تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے 60کی دہائی میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی منظم و متحرک تشکیل کرتے ہیں اور شہید میر عبدالخالق لانگو اس تنظیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ بی ایس او جو سیاسی قیادت فراہم کرنے کا ادارہ ہے۔ جس نے بلوچستان کو نامور قیادت فراہم کی۔ شہید میر عبدالخالق لانگو بھی اسی بی ایس او کا پیدوار ہے۔ بی ایس او جیسے ادارے سے میر عبدالخالق لانگو کی علمی اور فکری طور پر سیاسی تربیت ہوتی رہی اور وہ ایک سنجیدہ اور پختہ ذہن کے ساتھ سیاست کے عملی میدان میں شامل رہے، واضح رہے کہ ملک میں آمرانہ حاکمانہ سوچ نے ون یونٹ کا قیام صرف تعصب و نفرت کی بنیاد پر کیا گیا تاکہ ایک قوم کے مفادات کی تکمیل کو تحفظ دیا جاسکے اور تحفظ پر عمل کرتے ہوئے باقی قوموں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا گیا۔ اس لیے قوموں نے سیاسی شعور کو بروئے کار لاکر نیشنل عوامی پارٹی کی تشکیل کی۔ اور ون یونٹ و استحصال کے خلاف متحد ہوئے۔ لیکن پھر بھی اس حاکمانہ سوچ نے سانحہ بنگال کو جنم دیا اور ملک دولخت ہوا۔

اس کے بعد بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کو ختم کرنا بلوچستان میں فوجی آپریشن کرنااور ملک کی سیاسی قیادت کو ٹارچر و قیدوبند کرنے نے شہید میر عبدالخالق لانگو کی سیاسی نظریے کو مزید مستحکم کیا اور ظلم کو ستم کے خلاف جدوجہد کی پرچار کرنے لگے۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک ہو، ایوب خان کی آمریت، ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا بلوچستان کے عوام پر ظلم و بربریت کا محاذہو، حیدرآباد جیل میں نیپ NAPکی اعلیٰ قیادت کا پابندِ سلاسل کی تحریک ہو۔ جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف یہاں جنرل مشرف کا جمہوری حکومت پر شبِ خون مارنے کے تحریک ہو شہید میر عبدالخالق لانگو نے اپنے سیاسی قائدین اور دوستوں کے ساتھ اہم کردار کیا۔ میر عبدالخالق لانگو کو بلوچ قوم کے حقوق کے حصول اور اور ظلم و بربریت اور محکومی کے خاتمے کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں مختلف سازشوں اور رکاوٹوں کے ذریعے روکنے کی کوششیں کی گئی اور آپ نے مختلف ادوار میں جیلیں اور سختیاں برداشت کیں لیکن آپ نے قومی تحریک کو مزید منظم و دوام بخشنے کے لئے جدوجہد کو تیز کر دیا۔

میر عبدالخالق لانگو BNYM اور BNM اور نیشنل پارٹی کے سرکردہ بانی رہنماؤں میں سے تھے۔ شہید میر بلوچ قوم کو ایک منظم جماعت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، اس لئے وہ متوسط طبقے کو قومی تحریک میں کردار ادا کرنے کے لئے ان کی سیاسی اور شعوری تربیت کرنے لگے۔ کیونکہ ان کے اور ان کے سیاسی دوستوں کے مطابق اگر متوسط طبقہِ متحد و منظم ہو کر تنظیم کی شکل میں ڈھل جائے تو وہ دنیا بھر کے تنظیموں میں اولین تنظیم ہوگی اور تب ان کے حقوق غضب کرنے اور قومی شناخت کو بھی نقصان پہنچانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ دشمنوں نے ہمیشہ سازشوں اور تخریب کاری کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل جاری رکھی اور اس طرح 19 جون 2001کو ان عناصر نے اپنے منفی عزائم کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے میر عبدالخالق لانگو کو ان کے ساتھیوں سمیت مستونگ کے بھرے بازار میں شہید کر دیا اور بلوچ قوم سے ان کا ایک سیاسی استاد و تربیت گاہ جدا کر دیا۔ لیکن وہ نہیں جانتے شہادتیں تحریکوں کو تقویت دینے کا سبب بنتے ہیں اور اس لئے بلوچ قوم کو تمام شہداتوں پر فخر ہے اور کی جدوجہد کو اپنے لئے مشعلِ راہ سمجھتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔