جبری طور پر لاپتہ راشد حسین کو قانونی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں- لواحقین

155

متحدہ عرب امارات اور پاکستانی سے جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے لواحقین نے کہا ہے کہ راشد حسین کو قانونی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں۔

راشد حسین کے لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں پریس کانفرنس کی، یہ پریس کانفرنس راشد حسین کے پاکستانی میں گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر کی گئی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کو پاکستان میں آج ایک سال مکمل ہوچکا ہے لیکن ہمیں تاحال انصاف نہیں مل سکی ہے ، راشد حسین بغیر کسی جرم کے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر اذیت خانوں میں بند سزا کاٹ رہا ہے۔

پریس کانفرنس میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا گیا کہ 23 سالہ راشد حسین بلوچ 2017 سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے ، جہاں وہ ایک نجی تعمیراتی کمپنی میں ملازم تھے، جنہیں 26 دسمبر 2018 کو صبح 9 بجے کے وقت شارجہ سے متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر 6 ماہ تک لاپتہ کیا اور اس طویل دورانیہ میں نہ ہی ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی لواحقین کو ان کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ چلایا گیا بلکہ عالمی بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے راشد حسین کو نصف سال تک پابند سلاسل رکھا گیا چونکہ نہ وہ کسی غیرقانونی عمل میں ملوث پایا گیا اور نہ ہی اماراتی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوئے اس کے باوجود ان کے تمام حقوق سلب کرکے بغیر سفری دستاویزات کے 22 جون 2019 کو ایک نجی طیارے کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا جس کے تمام کاغذی ثبوت بھی ہے جنہیں ملک میں عدالت عالیہ و لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیشن سمیت مختلف فورمز پر پیش کیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ راشد حسین بلوچ کو آئینی اور انسانی حقوق دیکر اس کا فری ٹرائل کیا جاتا لیکن بجائے اس کے16 اپریل 2020 کو پاکستان کے ایک عدالت نے انہیں مفرور قرار دیا، حیران کن طور پر پاکستانی میڈیا خود انکے بارے میں ایک سال قبل دعویٰ کرچکی تھی کہ اسے پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا ہے جبکہ ہم گذشتہ ایک سال سے کوئٹہ اور کراچی میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کررہے ہیں علاوہ ازیں راشد حسین کی والدہ سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک سمیت مختلف شخصیات سے ملاقات کرکے بیٹے کی بازیابی میں کردار ادا کرنے کی التجا کرچکی ہے۔

لواحقین نے کہا کہ اب تک راشد حسین کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہے ، جس طرح متحدہ عرب امارات میں انہیں 6 ماہ تک لاپتہ رکھا گیا اسی تسلسل کو یہاں پاکستان میں بھی جاری رکھا گیا ہے، امارات سے راشد حسین کے غیر قانونی منتقلی کو آج ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے جبکہ ان کے جبری گمشدگی کو مجموعی طور پر ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔

لواحقین نے کہا کہ راشد حسین کے زندگی کو لاحق خطرات کے حوالے سے ہم روز اول سے اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں، پاکستان کے عدلیہ کی جبری طور پر لاپتہ راشد حسین کو مفرور قرار دینا ہمارے خدشات میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم انسانی حقوق کے اداروں، سیاسی و سماجی کارکنان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ راشد حسین سمیت دیگر لاپتہ افراد کے حوالے سے آواز اٹھاکر اپنا کردار ادا کرے۔