ترستی نگاہیں
محمد عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ان بلوچ ماؤں بہنوں سے شناسائی اس وقت ملی جب وہ کوئٹہ کے پریس کلب کے سامنے لگے، کیمپ میں بیٹھ کر ایک دردناک اذیت کی آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں. وہ کیمپ جہاں ستر سالہ ماما ہر روز بلا ناغہ اپنے بائیں ہاتھ میں ایک تھیلا اٹھائے کیمپ آکر بیشمار تصاویر کو پہلے چھوٹے سے کپڑے کی مدد سے خوب صاف کرتا ہے پھر ان تصاویر کو کیمپ کے اردگرد سجاتا ہے کچھ سامنے رکھتا ہے. یہ گیارہ سال سے جاری ہے. سردی ہو گرمی، بارش ہو برف، خوشی ہو غم، امن ہو جنگ، ہڑتال ہو کرفیو جیسے بھی حالات ہو ماما اپنے کیمپ لگا کر ان تصاویر کیساتھ محو گفتگو رہتا ہے. نہ جانے ماما ان تصاویر سے ایسے کونسی مجلس دیوان کرتا ہے جس کیلئے عید کے دن بھی ان سے دور نہیں رہ سکتا.
ماما کی کیمپ کے سائے میں دو بچیاں بھی اپنے درد کو کچھ ہلکا کرنے کیلئے گیارہ سال سے آتے جاتے ہیں. جی ہاں یہ گودی مہلب بلوچ اور گودی سمی بلوچ ہیں جن کے والد کو 28 جون 2009 کو لاپتہ کیا گیا. جس وقت ان کے والد کو لاپتہ کیا گیا اس وقت یہ بہنیں چھوٹی عمر کی تھیں. یہ تو کہنے میں گیارہ سال ہوتے ہیں لیکن ان گیارہ سال مہلب اور سمی پر درد اور کرب کی جو پہاڑ بن کر ٹوٹی اس کا کوئی اندازہ تک نہیں کر سکتا. اللہ پاک تمام انسانیت کو ایسے اذیت اور کرب سے بچائے آمین.
والد کا سایہ اس پھل دار درخت کی مانند ہوتا ہے جو ایک پرسکون سایہ کے ساتھ ساتھ میٹھی رس بھری پھل بھی دیتا ہے. ان بچیوں سے یہ سایہ پچھلے گیارہ سال سے چین گیا ہے. آج مہلب کہتی ہے اس گیارہ سال میں ہمیں سکون کا ایک دن بھی نہیں ملا ہے. آخر والد کے سایہ کے بغیر سکون کہاں سے آسکتی ہے. یہ ایک ایسا درد ہے جو ہر لمحہ ان کو قتل کر دیتا ہے. پھر ہم ایک مردہ سماج میں جی رہے ہیں جہاں زخم کو مرہم کرنے کے بجائے اور زیادہ کریدتے ہیں. سمی و مہلب کا درد ان تک بس محدود ہے کسی میں اتنا جرات نہیں کہ ان کو اپنا بچہ سمجھ کر ان کے سر پر شفقت کا دست رکھے. یہاں تو الٹا طعنہ دیتے ہیں من گھڑت افواہیں پھیلاتے ہیں. کیا اس گیارہ سال میں سمی اور مہلب کو اپنوں نے نہیں رلایا، کتنی بار روئے ہوں گی اپنوں کے باتوں سے. کتنے بار گھر میں اکیلی اپنی ماہ کے ساتھ آنسو بہائیں ہوں گی.
آج میرے ساتھ ایسے الفاظ نہیں کہ میں ان معصوم بہنوں کے اس کربناک داستان کو بیان کر سکوں جس کو ان معصوم بچیوں نے اپنے والد کے جدائی میں سہتی آرہی ہیں. سمی کتنے بار اپنے والد کو خواب میں دیکھی ہوگی، کیسی معصوم سی فرمائش کی ہوگی کہ ابا جان آپ اس عید کو ہمارے ساتھ گزارو گے. جب نیند سے بیدار ہوگی تو کتنا رویا ہوگا چیختا چلاتا ہوگا…. کتنی راتیں نیند کے بغیر رات شب بیداری میں اس امید سے گزاری ہوگی کہ شاید والد کو رات کے تاریکی میں آزاد کرکے گھر آجائے. لیکن بس وقت صرف ان کو پر سکون نیند اور راحت دیتا ہے جو اس کرب سے آزاد اپنے والد کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں.
کاش ان لوگوں کے سینے میں دل ہوتا شاید اس درد کو محسوس کرتے. پتہ نہیں یہ کس مذہب کے مانے والے ہیں. کاش مجھے ان کے مذہب کو پتہ ہوتا میں ان کو اس کے پیغمبر کا واسطہ دیتا، ان کے مقدس کتاب کا واسطہ دیتا، ان کو دنیا کے عظیم ہستوں اولیاء، کتب، ابدال کا واسطہ دیتا، ان کے پاؤں پڑتا ان کے سامنے ان بہنوں کے آنسوؤں سے تر دوپٹہ رکھ دیتا، ان کو ان ماؤں کے درد بھری لمحوں کا داستان سنا دیتا جو اپنے لخت جگر کے جدائی میں آنسو بہاتی اس دنیا سے رخصت کر گئی. بس صرف دکھ، تکلیف اور درد کے سوا کچھ نہیں، شاید ان کے دل میں کچھ رحم آجائے ان معصوم بہنوں کے زندگی کو پھر روشن کردے ان کے والد کو بازیاب کرے. شاید ان کی ترستی نگاہوں کو سکون و راحت نصیب ہوجائے. اللہ پاک ان کو سکون کے دن عطا کرے ظالموں کے دل میں تھوڑا سا رحم پیدا کرکے ان کے قبلہ محترم کو واپس ان معصوم کے زندگیوں میں لٹا دے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔