بلوچ عورت – جان گل کھیتران بلوچ

625

بلوچ عورت

تحریر: جان گل کھیتران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں بلوچ اور پشتون سٹوڈنٹس کے ساتھ ناانصافیاں عروج پر ہیں، بلوچ سٹوڈنٹس کو اپنے حقوق مانگنے پر گرفتار کیا جاتا ہے، ان کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، ان پر ڈنڈوں سے وار کیا جاتا ہے، بلوچ ماؤں، بہنوں کو گھسیٹا جاتا ہے، ان کی چادروں کو اتارا جاتا ہے جو بلوچستان میں ہر حال میں ممنوع ہے۔ بلوچستان وہ سرزمین ہے جہاں عورت کی بہت بڑی عزت ہے، دشمن کی عورتوں کو بھی عزت بخشی جاتی ہے، جہاں عورت کا نام آجاتا ہے، وہاں بلوچ لڑائیاں روک دی جاتی ہیں، قتل کے قتل بھی معاف کئے جاتے ہیں۔

اسلام میں بھی عورت اور بچوں کے ساتھ کسی بھی صورت میں برا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ہماری بہنوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک آخر کیوں کیا جاتا ہے؟ ہم تو اپنا حق مانگنے نکلے ہیں، ہم آپ سے کوئی آپ کا حق نہیں چھین رہے ہیں۔ تعلیم دو، ہم تعلیم بچانے نکلیں ہیں، ہمیں سڑکوں پر نکلنے پہ مجبور کیا جاتا ہے، ہم علم کے پیاسے ہیں، ہمیں ہمارا حق دیا جائے۔ ہماری عزتوں کو عزت میں رہنے دیا جائے، اس طرح اگر چلتا رہے گا تو ہم سڑکوں پر نکلتے رہیں گے، سٹوڈنٹس کا دنیا میں بہت احترام کیا جاتا ہے، سٹوڈنٹس بہت طاقت رکھتے ہیں لیکن افسوس بلوچستان میں سٹوڈنٹس کو مجرم کی طرح سمجھا جاتا ہے۔

کیا ہم اپنا حق بھی نہیں مانگ سکتے، اس طرح سے سٹوڈنٹس کو ڈرا نہیں سکتے، اگر آپ ایک کو ڈراو گے دس اور آواز اٹھائیں گے، آن لائن کلاسز لی جاتی ہیں، ہم جب کال کے لئے پہاڑوں پر جاتے ہیں، ہماری مجبوریوں کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔ ہم اپنی آواز کہاں اور کس کے پاس لے جائیں، ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں ہے، اگر ہم آواز بلند کرتے ہیں تو ہم دبائے جاتے ہیں، ہمارے اوپر ظلم کیا جاتا ہے، ہمیں فیک کہا جاتا ہے، ہمارے مطالبے منظور کئے جائیں، خدارا ہمیں سکون سے رہنے دیا جائے، آج شال میں سٹوڈنٹس پے ظلم ہوتا ہے، آج اس نے گذاری تو کل ہماری باری ہے۔ آج شال تو کل مکران، کل مکران تو پرسوں جھالاوان، پرسوں جھالاوان تو ترسوں بارکھان، ترسوں بارکھان تو اگے پورا بلوچستان پھر ہم سب کو باری باری یہ ظلم سہنا پڑ ے گا۔
ہم علم کے لئے سڑکوں پے کھڑے تھے
تم سکون سے گھروں میں پڑھتے تھے
ہم حق کے لئے کھڑے تھے
ہم کو اس کے لئے ڈنڈے پڑتے تھے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔