پاکستان میں مظلوم قوموں کو اپنے جمہوری حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کی پاداش میں جیل زندان، تشدد اور لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑتا، اگر وہ طالب علم ہو اسے اپنے تعلیمی ادارے سے ریسٹیگیشن اور آخر میں وہ اغوا ہوکر ایک مسخ شدہ لاش کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ بلوچستان کی اکثریت نے اپنی زندگی میں ایک بار ضرور ٹارچر سیل دیکھا ہوگا اور آرمی کی غیر آئینی تشدد سہا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بھوک ہڑتالی کیمپ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو چار ہزار دن مکمل ہوگئے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ دنیا کے امیر ترین خطے بلوچستان کی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ 76فیصد رقبے میں بجلی، 80فیصد علاقوں میں موبائل سروس تک نہیں۔ جہاں موبائل سروس موجود بھی ہے تو پاکستان آرمی نے اپنے مظالم کے خبروں کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس کو بند کیا ہے۔ اب جبکہ تمام بلوچستان میں انٹرنیٹ آرمی کی حکم پر بند ہے، بجلی تک بلوچستان میں نہیں ہے پر بھی ایچ ای سی بضد ہے کہ میں بلوچستان میں آنلائن کلاسوں کا اجرا کروں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آن لائن کلاسز کی اجرا میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی سو فیصد علاقوں میں 4G انٹرنیٹ تو بحال کریں۔ انٹرنیٹ تو آپکے پاکستان آرمی نے بند کیا ہے۔ جب تک انٹر نیٹ بحال نہیں ہوگا طلبہ آن لائن کلاسز کیسے اٹینڈ کریں گے۔ مگر تین ماہ سے HEC کو ہماری یہی چھوٹی سی عرض سمجھ نہیں آرہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی بات HEC کو سمجھانے کے لیے کل طلبہ نے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر پر امن احتجاج کرنے کی کوشش کی تو ان پر وحشیانہ تشدد کرکے انہیں گسھیٹ کر گرفتار کیا گیا ۔ بلوچستان کے طلبی کی قسمت کہ وہ جتنا اپنے کلاسز نہیں دیکھتے اتنا جیلوں کی زیارت کرتے ہیں۔