بلوچ شہداء و اسیروں کی قربانیوں نے جہد کو نئی نسل کو منتقل کیا ہے – بی این ایم

280

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا  ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی پاکستانی فوج کے ہاتھوں گمشدگی کو گیارہ سال مکمل ہونے پر پہلے 28 جون 2009 کو ایک آن لائن پروگرام کے علاوہ جرمنی کے دو شہروں میں مظاہرہ اور ریفرنس پروگرام کا انعقاد کیاگیا۔ آن لائن پروگرام سے مرکز ی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ڈائسپورہ کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ، بی این ایم برطانیہ کے صدر حکیم بلوچ، سابقہ مرکزی فنانس سیکریٹری حاجی نصیر بلوچ، جرمنی زون کے صدرحمل درا بلوچ  نے خطاب کیا۔

آن لائن پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کہا کہ آج ایک ڈاکٹر،ایک مسیحا کی جبری گمشدگی کو گیارہ سال پورا ہونے پر پروگرام میں ہم شریک ہیں۔ گیارہ سال ایک عمر ہوتاہے۔ جب ڈاکٹر صاحب کو اٹھایا گیا تو اس کے بچوں کی عمریں چار،چھ سال تھیں لیکن آج وہ بالغ ہوچکے ہیں لیکن یہ طویل ماہ و سال انہوں نے سڑکوں پر احتجاج کرتے گزاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ظلم کی تمام شکلیں قابل مذمت اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ لاپتہ کرنا یا جبری گمشدگی ایک کربناک عمل ہے۔ سالہاسال تک ایک تنگ سی کوٹھڑی میں قید لوگ روشنی سے محروم ہیں۔ ساتھ ہی اس درندے کی تشدد کی انتہا۔ جو لوگ اس دشمن کی زندان سے زندہ واپس آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ زندان میں موت بڑی خواہش بن جاتی ہے لیکن وہ بھی دشمن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ دوستوں کی شہادت ایک تکلیف دہ عمل ہے، لیکن میں سمجھتاہوں کہ گمشدگی کا درد کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتاہے۔ جس شخص کو دشمن زندان میں منتقل کرتا ہے وہ اذیت میں ہوتا ہی ہے لیکن لواحقین جس کربنا ک اور دردناک صورت حال سے دوچار ہیں، اس کا احساس صرف وہی کر سکتے ہیں جو اس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر دین جان نہایت بہادر انسان ہیں۔ جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے دشمن نے سب سے پہلے ہمیں رہنماؤں سے محروم کرنے کے لئے جارحیت کا آغاز کیا۔ ہمیں دین جان جیسے رہنماؤں سے محروم کیاگیا۔ لیکن ان رہنماؤں کی قربانی کامیابی کے ساتھ دوسری نسل کو منتقل ہوچکی ہے، جو سمی، مہلب اور ماہ رنگ سمیت ہزاروں کی شکل میں آج میدان عمل میں مصروف ہیں۔ یہ بلوچ کی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا پاکستان کے انسانی اقدار اور عالمی قوانین کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ بیس سالہ جدوجہد میں ہزاروں بلوچ قتل اور ہزاروں زندانوں میں قید ہیں۔ لیکن آپ کو ایک عدالتی ٹرائل نظر نہیں آتاہے۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ، لالا منیر، شیرمحمد، صدیق عیدو، یوسف نذر اور کماش نصیر کمالان جیسے لوگوں کو انکے وکلاء کی چیمبر یا پولیس کسٹڈی سے ریاستی خفیہ اداروں نے اٹھاکر ٹارچرسیلوں میں اذیت ناک موت سے دوچار کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان محض تشدد اور قتل عام سے بلوچ قوم کو غلام رکھنا چاہتا ہے۔ یہ فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ تشدد سے کسی قوم کو فنا نہیں جاسکتا ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں ہم پر بھاری داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم شہدا ء اور راجی اسیروں کے مقروض ہیں۔ پاکستان نے جتنے بلوچ فرزند شہید کئے ہیں یا زندانوں کی نذر کردیئے ہیں، ان کا ادھورا مشن، ان کے حصہ کا کام ہمیں ہی پورا کرنا ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ورکر تمام اسیروں کی ارمانوں کی تکمیل کے لئے کسی قربانی سے پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد اور اس کے خاندان کی ہمت اور قربانی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ غلام قوموں پر قبضہ گیر کے مظالم کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تشخص، ثقافت اور وسائل سے محروم کئے جاتے ہیں۔ غلام قوم کو سوچنے والی دماغوں سے محروم کیاجاتاہے۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو میں بچپن سے جانتاہوں۔ وہ بی ایس او کے زمانے سے سیاست میں سرگرم تھے۔ ریاست نے ایک زمانے میں ملاؤں کو بی ایس او کے مدمقابل لانے کی کوشش کی اور مشکئے میں بی ایس او کے ساتھ ملاؤں کے طلبہ تنظیم کے ساتھ تصادم ہوا۔ ڈاکٹر دین جان اور کچھ ساتھی گرفتار کرلئے گئے۔ یہ ان کا پہلا گرفتاری تھا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ زمانہ طالب علمی سے دلیری کے ساتھ سرگرم تھے۔

انہوں نے کہا نئی صدی کے آغاز پر موجودہ تحریک کے ابتدائی دن تھے۔ بی ایس او آزاد کے لئے مباحث شروع ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ تمام مراحل میں شریک تھے۔ واجہ غلام محمد نے بی این ایم کو موجودہ شکل دی تو ڈاکٹر دین محمد پارٹی کا حصہ بنا اور مرکزی لیڈر بنے۔ انہوں نے پارٹی کی فعالیت کے لئے انتھک کوشش کی۔ اپنے کیریئر اور علم و دانش کو جدوجہد کے لئے بروئے کار لارہے تھے کہ انہیں اٹھایا گیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہامشکئے جیسے علاقے سے ایک غریب گھرانے سے اٹھ کر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا اور سرکاری نوکری پانا بہت سے لوگوں کے لئے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر دین محمد نے اس کامیابی کے سامنے جدوجہد کو ترجیح دی۔ انہیں بھی وہی خدشات لاحق تھے جو ہر جہدکار کو ہوتے ہیں۔ انھوں نے پرواہ نہیں کی اور سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

انہوں نے کہاکہ اس جدوجہد میں بلوچ بڑی تعداد میں قربانی دے رہے ہیں۔ آج ہزاروں لوگ نجانے اذیت خانوں میں کیسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان قربانیوں کا ثمر صرف بلوچ قومی آزادی ہے۔ گوکہ آج ہماری اسیروں کے لئے ہمیں کوئی بڑی بین الاقوامی اداروں کی بڑی کارکردگی نظر نہیں آتا ہے لیکن آزاد قوم کی صورت میں ہم عالمی فورم پر پاکستان کو احتساب کے عمل سے گزار سکتے ہیں۔ جدوجہد مسلسل، قربانی اور مستقل مزاجی کا تقاضا کرتاہے۔ اگر ہمارے قدم ڈگمگائے تو بہت کچھ ضائع ہوجائے گا۔ اس صورت حال میں تمام اسیروں اور شہیدوں کا ادھورے مشن کو صدق دل، ایمانداری اور بلوچی قول کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔ ہم عہد کریں کہ کوئی ایسی عمل نہیں کریں گے جس سے پارٹی اور جدوجہد کو نقصان پہنچے۔

حاجی نصیر بلوچ نے کہا کہ بیس سالہ جہد آزادی کا تسلسل ڈاکٹر دین محمد جیسے ہستیوں کی قید و بنداور قربانی اور محنت کا حاصل ہے۔ میں پہلی بار انہیں شال میں ملا۔ وہ ایک خوش لسان اور متاثر کن انسان ہیں۔ ان کی جدوجہد ایک آزاد وطن کے لئے ہے۔ ڈاکٹر دین محمداس بات کا قائل ہے کہ موجودہ جدوجہد کا عملی و نظری صورتوں میں ماضی کے جدوجہد کے مراحل سے مختلف ہو۔

انہوں نے کہا کہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہونے کے باوجود انہوں نے شال جیسے شہر میں نوکری اور آسائش کی زندگی چھوڑ کر اورناچ جیسے علاقے میں لوگوں کی خدمت کی تاکہ وہاں نہ صرف طب کے شعبے میں لوگوں کی خدمت کی جائے بلکہ انہیں جدوجہد کے لئے بھی تیار کی جائے۔ مسلسل جدوجہد اوراپنے رویے کی وجہ سے لوگوں میں ہر دلعزیز بن چکے تھے۔ یہ ان کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان کے بچے کوئٹہ میں بلوچ اسیروں کی بازیابی کے لئے مسلسل عمل میں مصروف ہیں۔

حاجی نصیر بلوچ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ڈاکٹر صاحب احتیاط کریں۔ دشمن کے ایجنٹ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ احتیاط ضروری ہے لیکن میں اپنے لوگوں سے الگ نہیں رہ سکتا ہوں۔ ہمیں ہر صورت میں لوگوں کے بیچ موجود رہنا چاہئے۔ آج ہمیں عمل کے میدان میں دین جان کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ تمام اسیروں کی قربانیاں اور اذیت ناک زندگی ہم سے یہی تقاضا کرتاہے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی فرض کو نبھانے کی کوشش کریں۔ اگر جدوجہد کی طرف توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے اور منفی طرزعمل کا شکار ہوئے تو بلوچ فرزندوں کی قربانیاں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمارے تمام ساتھیوں کو ڈاکٹر دین جان کی طرح ہمت اور حوصلے کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔ ان حالات میں ڈائسپورہ کے دوستوں پر زیادہ ہی ذمہ داریاں عائد ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دشمن ضرور نقصان دے سکتاہے لیکن ناقابل تلافی نقصان اپنے اندرموجود لوگوں سے ہوتاہے۔ بلوچ قومی تحریک کا طویل تجربہ یہی ثابت کرتاہے۔

حسن دوست بلوچ نے کہا ہمیں وہ دن اچھی طرح یاد ہیں کہ بلوچ تحریک سکوت کے عالم میں تھا اور بلوچستان نیشنل موومنٹ قیادت حئی کی صورت میں مبہم نعروں کی ذریعے تحریک کو کاؤنٹر کرنے میں مصروف تھے تو دوسری جانب چیئرمین غلام محمد نے ان کا مقابلہ کیا۔ ڈاکٹر حئی گروپ نے بی این ڈی پی سے انضمام کرکے بی ایم این کو ختم کرنا چاہا۔ شہید غلام محمد نے انضمام کے بعد بلوچ نیشنل موومنٹ کو برقرار رکھا۔ چیئرمین غلام محمد اور اس کے ٹیم ممبر اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس عمل کا انجام شہادت ہی ہے۔ انہیں نہ صرف پاکستان سے خطرات لاحق تھے بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نام نہاد قوم پرست بھی رکاوٹ ہیں، لیکن انہوں نے ان سب کا مقابلہ کیا اور اس امید کے ساتھ جدوجہد کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں کہ دوست اس محاذ کو سنبھالیں گے۔

حسن دوست نے کہا اس جدوجہد میں خاموش سپاہی ہی قوم کو منزل تک پہنچائیں گے۔ ذاتی نمود و نمائش اور منفی عمل جدوجہد کو نقصان سے دوچار کرے گا۔ یہ عمل شہدا ء اور زندانوں میں اسیر بلوچ فرزندوں کی قربانیوں کی یکسر نفی کرتے ہیں اور یہ عمل ہمیں مزید مشکلات سے دوچار کریں گے۔

جب بی این ایم کا پہلا کونسل سیشن ہوا تو میں اسٹیج سیکیرٹری تھا۔ جب دین جان تقریر کر رہا تھا اور وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے دو لفظ لکھ کر دین جان کے سامنے رکھا کہ آپ مختصرکریں وقت کم ہے، تو انہوں نے کہا جب ہم نے پارٹی کو بلوچستان نیشنل موومنٹ سے بلوچ نیشنل موومنٹ میں تبدیل کرکے آزادی کے لئے واضح موقف کے ساتھ اتنی بڑی قدم اٹھایاہے تو جب ہمیں وقت بھی اسی کو دینا چاہیئے۔

حسن دوست بلوچ نے کہا کہ آج ہمارے پاس وسائل اور جدید طریقہ کار کے باوجود دوستوں میں ابہام اور کنفیوژن کا تاثر ملتاہے۔ اس سے یقینا تحریک کے حق میں نتائج مثبت برآمد نہیں ہوں گے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہماری جلاوطنی دشمن کی کامیابی ہے۔ اس نے وطن سے نکالا لیکن ہم صرف جان بچانے کے لئے دیار غیر میں پناہ گزین نہیں بلکہ قومی مقصد کی حصول کے لئے آئے ہیں۔ آج ہم وطن میں اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہیں لیکن اس نقصان کی تلافی آزاد اور مہذب دنیا میں بلوچ قومی موقف کو بڑھانا اوربالخصوص میڈیا سے محروم وطن کے لئے آواز بن کر بہتر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں۔ ان لوگوں کی ارمانوں کو تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں جو شہید ہوچکے ہیں یا دشمن کے زندانوں میں قید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خود احتسابی سے اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنی اصلاح کرنا چاہئے تاکہ پارٹی، پارٹی دوستوں اور جدوجہد کے مجموعی مفاد کے لئے بہتر نتائج دے سکیں، کیونکہ بلوچ قوم کی امیدیں سیاسی میدان میں بلوچ نیشنل موومنٹ سے وابستہ ہیں۔ اس مقصد کے لئے ڈاکٹر دین محمد جیسے دوستوں کی زندانوں میں اسیری سے جو خلا پیدا ہو چکا ہے، ان کو پُر کرنے کی ذمہ داری ہم ہی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم تمام دوستوں اس بات کا سوگند اٹھا چکے ہیں کہ منزل کی حصول تک ہم دم نہیں لیں گے، ایمانداری اور جفاکشی سے آخری سانس تک بلوچ قومی آزادی کے لئے کام کرتے رہیں گے۔

بی این ایم یونان کے آرگنائزر قدیر ساگر نے کہا آج دین جان کی جبری گمشدگی کو گیارہ سال مکمل ہوچکے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کا عمل آج بھی جاری ہے لیکن ریاست کی بربریت کے باجود جدوجہد شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر آج ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ظلم و بربریت اور آتش و آہن کے برسات کے ماحول میں نئی نسل جوان ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت تمام اسیروں کی قربانی ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ ہم سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی توانائیوں کو جدوجہد کے لئے روبہ عمل لائیں۔ ڈاکٹر دین جان اور تمام بلوچ اسیر اور بلوچ شہداء کے مشن کا علمبردار پارٹی کے نظریاتی کارکن ہیں اورہم اپنی فرائض سے انصاف کرپائیں گے جب ہم شہدا اور اسیروں کے خواب کو عملی میدان میں تعبیر بخش دیں۔

بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل درا بلوچ نے کہا میں ڈاکٹر دین جان سے کبھی نہیں مل سکا کہ ان کی ذات پر بات کرسکوں لیکن فکری ونظریاتی ہمراہداری ہمیں باہم ملاتا ہے اور ناآشنائی اور فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ تمام ساتھی جو شہید ہوچکے ہیں یا زندانوں میں قید ہیں ان کا فکر اور کردار ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس جدوجہد سے پہلے بھی بلوچ ڈائسپورہ موجود تھا۔ خلیج میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے لیکن ان کے پاس اجتماعی مفادات کے لئے قومی پروگرام نہیں تھا۔ اجتماعی قومی مفادات ان کے ترجیحات میں شامل نہیں تھے لیکن یہ دین جان سمیت تمام اسیروں کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج ڈائسپورہ قومی جدوجہد کو دیار غیر میں آگے بڑھارہے ہیں۔ یہاں مقامی لوگوں کو بلوچ قومی مسئلے کے بارے آگاہ کررہے ہیں۔بلوچ اسیر تمام خطرات سے آگاہ تھے لیکن انہوں نے خاندان،آسائش پر قومی جدوجہد کو ترجیح دی اور دشمن کی بربریت کا شکار ہوئے۔

ریاض بلوچ نے کہا کہ انقلاب کا آغاز اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر دین جان کی بچیاں میدان عمل میں سرگرم ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ان رہنماؤں نے انقلاب عمل کی کامیابی کے لئے نئی نسل کو بہترین تربیت دی ہے۔