بلوچستان کا آخری صاحب بصیرت سردار – رشید یوسفزئی

1070

بلوچستان کا آخری صاحب بصیرت سردار

تحریر : رشید  یوسفزئی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں، حسین وادیوں اور وسیع لق و دق صحراؤں کو کبھی دیکھا جائے تو ہر پتھر ، ریت کے ہر ذرّے اور بیل بوٹے سے مزاحمت کی خوشبو آتی ہے، پرتگیزیوں سے لے کر انگریزوں اور پھر ان کی موجودہ قابض نسل تک، بلوچوں نے ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اپنے وطن کے سینے کو لہو کے خوشبو سے معطر کیا ہے جو کہ تاحال جاری ہے، اور موجودہ بلوچ مزاحمتی تحریک کو جدید بلوچ نیشنلزم کی شکل دینے میں ایک عظیم انقلابی انسان کی جدوجہد کارفرما رہی ہے، ہمت، جرات، استقلال، خرد اور بصیرت کے حامل یہ شخص خیربخش مری تھے، جن کے خون میں ان کے انقلابی دادا کا خون بھی شامل تھا، دادا کا نام بھی خیربخش مری تھا۔

بلوچستان میں برطانیہ کے انگریز لاٹ نے سبی میں تب کے بلوچ سرداروں سے اپنی بگھی کو کھینچ کر ریلوے سٹیشن تک لے جانے کا کہا، تو اس خیر بخش مری نے تلوار میان سے نکال کر بگھی کھینچنے سے انکار کیا تھا،اور پھر اپنے قبیلے سے انگریز سرکار کو سپاہیاں دینے سے بھی انکار کر کے مزاحمت کا عَلَم بلند کر دیا تھا۔

ایک کہاوت ہے کہ دنیا کے بڑے واقعات انسانی دماغ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں، انقلابی دادا کے حریت پسند پوتے خیر بخش مری نا صرف بلوچوں کے لیے بلکہ تمام محکوم اقوام کے لیے ایک ایسا ہی مثالی زرخیز ذہن رہے ہیں۔

برصغیر میں نوآبادیاتی مسائل اور سیاست کی فہم خیر بخش مری سے زیادہ شاید ہی کسی کو رہی ہو، اگر کوئی پشتون، بلوچ اس خطے اور اس میں دہائیوں سے جاری نوآبادیاتی مسائل کا مطالعہ خیر بخش مری کو پڑھے اور سنے بغیر کرتا ہے تو اس کا یہ مطالعہ ہمیشہ ناقص اور نامکمل رہے گا، اشتراکی فکر کے قائل یہ بلوچ قوم پرست رہنماء خود میں ایک درسگاہ تھے۔

اگرچہ آغاز میں وہ پارلیمانی سیاست کا حصہ رہے، ساٹھ کی دہائی میں پاکستان قومی اسمبلی کے ممبر بنے اور پھر 1970 کے انتخابات میں بھی حصہ لے کر کامیاب ہوئے مگر بلوچ قومی سوال پر ان کا مؤقف پارلیمان میں رہتے ہوئے بھی نرم نہ ہوا اور 1973 کے استحصالی آئین پر دستخط نہیں کیے۔

فاشسٹ بھٹو پشتونوں اور بلوچوں کا ناقابل فراموش و ناقابل معافی مجرم ہے، خان عبدالغفار خان اور ولی خان کے طرح نواب مری بھی بھٹو کے معتوب ٹھہرے، غوث بزنجو، ولی خان اور نیپ کے دیگر رہنماؤں سمیت جیل میں ڈال دیے گئے، اور بلوچستان پر ایک خونی آپریشن کا آغاز ہوا، نام نہاد جمہوریت پسند بھٹو نے بلوچوں کی لاشوں کو شاہِ ایران کے بھیجے گئے ہیلی کاپٹرز میں ڈال کر فضا سے نیچے پھینکا، بستیاں بمباری کے ذریعے ملیا ملیٹ کر دی گئیں، مال مویشیوں کو لوٹا گیا، اور ہزاروں بلوچ اپنے علاقوں سے بلوچستان کے دیگر مضافاتی علاقوں اور افغانستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور کچھ سالوں بعد خیر بخش مری جیل سے رہا ہوئے، اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ افغانستان گئے، پاکستان کی نوآبادیاتی پالیسیز کے خلاف مزید سخت ترین مؤقف اختیار کر لیا، اور بلوچستان کی آزادی سے کم کسی اور بات کو سختی سے رد کرتے رہے،اس دوران وہ بلوچوں کی زبردست سیاسی تربیت اور رہنمائی کرتے رہے، زندان و افغانستان میں نواب مری کے ہم سفر پشتون نیشنلسٹ رہنماء افراسیاب خٹک نے کل ان پر اپنے انگریزی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ حریت پسند نواب مری کو افغانستان بھی برداشت نہیں کرسکی۔

اگر آج تقریباً ہر تعلیم یافتہ بلوچ اپنے قومی مزاحمت کے حوالے سے اجتماعی قومی مؤقف پر ذہنی و عملی طور پر کلئیر ہے تو اس ذہنی آبیاری میں سب سے اہم کردار خیربخش مری کا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ ریاست کے دوغلے بیانیوں، نام نہاد ترقیاتی پیکجز کے لالچ اور ریاستی جبر جیسے ہتھکنڈوں کے سامنے کبھی جھکیں گے، یہ ان کی بھول ہے، ان کی تاریخی سیاسی تربیت میں بابا مری کی صورت میں ایسے مرد قلندر کا ہاتھ ہے جو اپنے فکر و عمل میں بلوچستان کے فرانز فینن بھی تھے،اس کے سارتر بھی تھے، اور اس کے چی گوویرا اور کاسترو بھی تھے، سٹڈی سرکلز اور دیگر سیاسی مجالس کے ذریعے انہوں نے براہ راست ایک پوری نسل کی ذہنی نشوونما میں قومی استاد کا کردار ادا کیا، بلوچوں کو سیاسی شعور اور خود اگاہی دی، ہر بلوچ نوجوان کی دل سے خوف نکال کر ان میں باغیانہ روح پھونک دی ۔

بقول ممتاز اورکزے
زہ بہ قیصے اوکڑم او داسی بہ قیصہ عامہ کڑم
د ڈار پہ خار کی بہ باغی باغی لہجہ عامہ کڑم

اپنے بیٹے بالاچ کو بندوق تھما کر بلوچستان کی آزادی کے لیے پہاڑوں کی راہ دکھائی۔

ترقی کے پیکجز کو انہوں نے بھیک، غلامی کی زنجیریں اور سامراجی ہتھکنڈے قرار دیا اور بلوچوں کو ان ہتھکنڈوں سے دھوکہ نہ کھانے کی ترغیب دی، چین کے گن گانے والے پاکستانیوں کے پاکستان کے بارے میں کہا کہ یہ پہلے ایک سامراج (امریکہ) کی رکھیل تھا اور اب دو سامراجوں (امریکہ اور چین) کی رنڈی بن گیا ہے، جبکہ بلوچ اپنی جداگانہ تاریخ و ثقافت اور قومی غیرت رکھتا ہے، ایک ناجائز قوم غیر فطری جعلی قومیت کے ساتھ بلوچ جیسی تاریخی قوم خود کو کیسے جوڑ سکتی ہے۔

یوں ان کا مؤقف پاکستان کی غلامی کو مسترد کرنے کے حوالے سے ہمیشہ سخت رہا، پاکستان ان کے یہاں پنجابی سامراج تھا، ایک بار اس حد تک کہا کہ ”سور کے ساتھ تو بقائے باہمی ممکن ہو سکتی ہے، پنجابی کے ساتھ نہیں“۔ لوگوں کو ان کا یہ سخت مؤقف ناگوار گزرا تو انہوں نے بعد ازاں کہا کہ “میں جب زرینہ مرینہ جیسی بلوچ بیٹیوں کو بھی ان بیغیرتوں کے ٹارچر سیلز میں دیکھتا ہوں تو مجھے پنجابی سامراج کے حوالے سے اپنا یہ مؤقف درست ہی معلوم ہوتا ہے” ۔

مجھے یاد ہے دوہزار سات کو شاید بی بی سی کے پروگرام سیر بین میں شفیع نقی جامی نے ان سے پوچھا “آپ مستقل پنجاب کو کیوں ہدف ملامت کرتے ہیں؟ جواب میں کہا “ہمارے خلاف ہر اٹھنے والے ہاتھ کی پیچھے پنجاب ہی ہوتا ہے، خواہ وہ ہاتھ بھٹو کی شکل میں ہو یا ایوب و مشرف کی شکل میں ! ” ان کی فکر کا یہی پہلو انہیں سب عمومی مزاحمت کاروں سے ممتاز بناتی ہے۔

انہوں نے بلوچ قوم کے سامنے سامراج کے تمام عزائم کو کھلی کتاب کی طرح کھول کر سامنے رکھ دیا،عالمی سیاست پر عمیق ترین نگاہ رکھتے تھے، بلوچوں کو اپنے ہی بل بوتے پر اپنی جنگ لڑتے رہنے کا مشورہ دیتے رہے، ان کیلئے امریکہ اور چین یکساں سامراجی حیثیت رکھتے تھے،افغانوں اور افغانستان کو اپنا تاریخی دوست اور حلیف قرار دیتے تھے۔

 نواب مری کی سالگرہ پر  اپنی خوبصورت تحریر میں سینیٹر افرسیاب نے لکھا ہے کہ 76 میں حیدرآباد جیل میں بھٹو نے قید کیا تو ہمارے وکیل نواب محمود قصوری قانونی کارروائی کیلئے اپنے موکلان سے ملاقات کیلئے آئے، سب سے ہاتھ ملایا، نواب صاحب دور بیٹھے تھے،قصوری صاب نے کہا “نواب صاحب، آپ بہت دور بیٹھے ہیں!” نواب مری نے فورا جواب میں کہا، “قصوری صاحب، پنجابیوں کے ہاتھ تو بہت لمبے ہوتے ہیں۔

گوریلا جنگ، علاقائی و عالمی سیاست اور نوآبادیاتی عوامل پر اتنی گہری نظر رکھنے والا انقلابی شخص برصغیر کی مٹی نے نہیں جَنا ہے، اپنے ایک ایک لفظ پر کلئیر ہونے، اس پر چٹان کی طرح ڈٹے رہنے اور پھر اپنی قوم کی انہی بنیادوں پر تربیت کرنے جیسی خاصیتیں اس خطے کے کسی قائد کے حصے میں نہیں آئی ہیں سوائے نواب مری کے، یہ تھا حقیقی بلوچ سردار، یہی وہ حقیقی سردار تھا جس نے ڈکٹیٹر مشرف کے اربوں روپے کے پیکجز کو بھیک قرار دے کر واپس منہ پر مارنے کا کہا، مراعات، ریاستی کاسہ لیسی کی ہوس جس کے پرکھوں کو بھی کبھی چھو کر نہیں گزرا تھا، قومی غیرت، حمیّت، آزادی اور اشتراکیت بلوچ قوم کے اس مرد حر، مرد قلندر کے موٹوز تھے۔

عربی شاعر ابوطیب احمد المتنبی نے کہا تھا۔
مضت الدھور و ما اتین بمثلہ
و لقد اتی فعجزن عن نظرائہ

زمانے گزر گئے اسکا مثال نہیں آیا،اور جب وہ آیا تو زمانے کی ماں اس کی مثال لانے سے قاصر رہی۔

نواب مری کے تخلیق کے بعد حریت و انقلاب کے دیوتاؤں نے وہ قالب ہمیشہ کیلئے تھوڑ دیا۔۔ رہے نام اللہ کا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔