بلوچستان میں ہر گھر جبری گمشدگیوں سے متاثر ہے – ماما قدیر

110

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3997 دن مکمل ہوگئے۔ سیاسی و سماجی کارکن شمائلہ اسماعیل، ماہ رنگ بلوچ، ایڈووکیٹ خالدہ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کی خونی آپریشن اپنی تمام تر سفاکیت اور ہولناکی کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان کا کوئی کونہ، کوئی گھر نہیں بچا جہاں پاکستانی فورسز نے اپنی بربریت کی صورت کشی نہ کی ہو۔ 54 ہزار کے قریب افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، مسنگ پرسنز کے ٹائٹل اوڑھے ریاست کی عقوبت خانوں میں غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی اذیت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں لاپتہ افراد کو مذکورہ ٹارچر سیلوں میں اذیت ناک تشدد کے بعد شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان بھر میں پھینک دی گئی ہے، لاکھوں کی تعداد میں لوگو بلوچستان سے ہجرت کرکے دوسرے صوبوں اور ملکوں میں خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ سیاسی کارکنان، طلباء سمیت ہر طبقہ فکر کو ریاست کی بربریت کا سامنا ہے۔ بلوچ قوم کے لیے عرصہ حیات مکمل تنگ کردی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک مکمل جنگ کی صورت ہے۔ ریاستی فورسز کا چادر و چار دیواری کی تقدس کی پامالی روز کا معمول بن گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الشمس و البدر نامی تنظیموں کی طرح بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دیکر خونی تاریخ میں ایک سیاہ باب شامل کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں آزاد میڈیا کا پول کھولنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے ماؤں بہنوں کو دیکھ نہیں پاتے ہیں۔