بلوچستان میں قتل کا راج – میراث بلوچ

270

بلوچستان میں قتل کا راج

تحریر: میراث بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سرزمین فوج کشی کے ذریعے جب سے پاکستانی ریاست کا حصہ بنایا گیا ہے، تب سے لیکر آج تک بلوچستان کو ریاستی جبر کے نتیجے میں ان گنت لاشیں تحفے میں دی گئیں۔ ان انگنت لاشوں کی تاریخ قومی و طبقاتی جبر کے خلاف عوامی مزاحمت کے ساتھ ایک جدلیاتی رشتے میں جڑی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تربت کے علاقے ڈنک میں ریاستی پشت پناہی میں ایک جرائم پیشہ گروہ (ڈیتھ اسکواڈ) نے ایک گھر میں گھس کر ملک ناز نامی عورت کو قتل کر دیا اور ننھی کلی برمش کو شدید زخمی کیا۔ اس نوعیت کا ایک اور واقعہ چند روز قبل پھر تربت کے علاقے تمپ دازن میں پیش آیا جہاں ریاستی حمایت یافتہ ڈاکوؤں نے گھر میں گھس کر کلثوم نامی عورت کی جان لے لی اور اس کے گھر میں موجود تمام قیمتی اشیاء کا صفایا کیا اور آسانی سے فرار ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق کلثوم سے ڈاکوؤں نے سونا لوٹنے کی خاطر کلثوم کے دونوں کان بھی بے دردی سے کاٹ لئے۔

واقعہ ڈنک ہو یا واقعہ دازن، یہ بلوچستان کی نو آبادیاتی سماج میں کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں واقعات اس تاریک تاریخ کا حصہ ہیں جو کبھی منظر پر نہیں آسکی ہیں۔ ان سارے ظلم و جبر کے واقعات کی بنیادیں بلوچستان میں جاری حقوق و آزادی کی جدوجہد کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، جس کے لیے ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔

پچھلے سال سیما بلوچ کی جرات اور بہادری کے بعد بلوچ سماج میں لمبے عرصے سے طاری سکوت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا گیا جس کا اظہار ملک ناز کے قتل اور برمش کو انصاف دلانے کیلئے بلوچستان بھر میں احتجاجی ریلیوں کی صورت میں دیکھا گیا۔ یہ بلاشبہ ایک نئی سیاسی اور سماجی ہلچل کا اظہار تھا جو کافی عرصے سے بلوچستان کی سماج میں پل رہا تھا۔ بظاہر تو یہ سماجی حرکت ملک ناز کے قتل اور ننھی برمش کو انصاف دلانے کیلئے تھا مگر حقیقی طور پر یہ دہائیوں سے چلی آرہی محرومیوں، دربدری، غربت، لاعلاجی، پسماندگی اور ریاستی ظلم و جبر کا اظہار تھا جو وہ برسوں سے چپ چاپ سہتے رہے۔ ہم نے دیکھا کے مکران سے لے کر اورناچ اور خضدار سے لے کر کوہلو تک بلوچستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر قصبے گاوں میں عوام نے بڑے پیمانے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ملک ناز کا قتل ہو یا کلثوم کا، یہ سب واقعات بلوچستان میں ریاست کے ننگے جبر کی وضاحت ہیں۔ بہت سے جگہوں پر تو ریاست خود براہ راست اس طرح کے غیر انسانی عمل میں ملوث ہوتی ہیں اور جہاں ریاست خود براہ راست شامل نہیں ہوسکتی تو وہاں پالے ہوئے غنڈوں کی مدد سے عام عوام کی زندگیوں کو اجیرن بناتی ہے۔ یہ وہی گروہ ہیں جو دن میں ریاستی آشیرباد سے سیاسی سرگرمیاں کر رہے ہوتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں نقاب پوش ڈاکو بن جاتے۔ اگر یہ براہ راست سیاست نہیں کر رہے ہوتے تو کسی نہ کسی امیر سیاسی شخصیت کے لیے نوکری ضرور سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اس بات کا انتہاہی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا کہ کیونکر بلوچستان میں صرف چور و ڈاکو ہی سیاست پر براجمان ہیں؟ اور ان چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے یہ سیاسی خلاہ پیدا ہی کیوں ہوئی؟

برمش کے حق میں ابھرتی تحریک میں ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ کل تک عام عوام جن کا نام بند چار دیواری میں نہیں لے سکتے تھے، آج ان کے نام پلے چارٹس پر آویزاں کرکے ان کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے اور ریاست کے بنائے ہوئے مصنوعی خوف میں دراڑیں ڈال رہے تھے۔

ہم مارکس وادی تحریکوں کا رومانوی تجزیہ نہیں کرتے بلکہ ایک درست اور سائنسی تجزیے کی بنیاد پر تحریکوں کا لائحہ عمل دیتے ہیں۔ تحریک میں موجود خامیوں کا ذکر ہم فرض سمجھتے ہیں کیوں کی تحریک کی نظریاتی اور سیاسی کمزوریاں تحریک کو کمزور کر دیتی ہیں اور ایک مخلص سیاسی کارکن اسے اپنا نظریاتی فریضہ سمجھتیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں حالیہ پیش آنے والے دردناک واقعات اور اس کے ساتھ جڑے دیگر سماجی مسائل جن میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سر فہرست ہے اور جس میں ہم نے ایک سیاسی ہلچل ایک لمبے عرصے باد بلوچستان کے سر زمین پر دیکھی تھی، جس کی قیادت ایک خاتون سیماء بلوچ کر رہی تھی۔ سیما بلوچ کی جدوجہد ہی وہ پہلی چنگاری تھی جس نے بلوچستان کی سیاست میں پھر سے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ چونکہ ایک پختہ قیادت اور سیاسی پروگرام کی عدم موجدگی میں وہ تحریک وقتی طور پر پیچھے تو چلی گئی لیکن آنے والے دنوں میں یہ ممکن ہے کہ پھر ایک تحریک ابھرے جو پہلے کی تحریکوں سے معیاری طور پر بلند ہو۔ خودرو تحریکیں بعض اوقات قیادت بھی تراش لاتی ہیں، اس ضمن میں ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نئے عہد کے ساتھ ہمیں ان تمام تر پرانے طریقوں اور ڈھانچوں کو توڑ کر ایک نئے لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو اس بدلتی ہوئی صورتحال سے ہم آہنگ ہو۔

پاکستان کی ریاست آج اپنے تاریخی داخلی اور خارجی بحران سے گزر رہی ہے جو شدید سیاسی اور سماجی خلفشار میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ عام عوام اور محنت کشوں کے سامنے پرانی تمام قیادتوں کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے اور اب عوام کی زیادہ سے زیادہ پرتیں ان روایتی قیادتوں کی جانب نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جس تیزی سے ریاست کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اتنی ہی تیزی سے وہ محنت کشوں پر وار کر رہی ہے اور مزید بھی کرے گی۔ ایسے میں بڑی تحریکوں کا تناظر بھی قطعاً خارج از امکان نہیں ہے۔

ہم محض نعروں کے زریعے نہیں بلکہ ایک ٹھوس سیاسی لائحہ عمل اور ایک سائنسی نظریہ کے بل بوتے پر ہی اس جبر کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس ظلم کی بنیادے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں ہی موجود ہیں۔ جدید عہد ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ پرانے طریقہ کار کو پیچھے چھوڑ کر ایک سائنسی نظریے کا دامن تھاما جاۓ جس کو ذریعے اس تمام تر جبر کا خاتمہ کیا جائے۔

ریاست کا بحران لا محالہ طور پر تحریکوں کو جنم دے گا لیکن تحریکوں کی قیادت کے لیے ایک باشعور اور نظریاتی طور پر لیس ایک سیاسی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مارکس نے آج سے دو سو سال قبل کہاں تھا کے ہمارے پاس کھونے کو زنجیریں ہیں اور جیتنے کو سارا جہاں پڑا ہے۔

آج یورپ سے لے کر امریکہ تک ان دیوہیکل ریاستوں کی بنیادیں عوامی بغاوتوں نے ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن ایک موضوعی عنصر کی عدم موجودگی ان تحریکوں کو حتمی منزل تک نہیں پہنچا سکی۔ خرگوش کی نیند سوئے ہوئے آج بھی پرانے عہد کی پرانی روایتوں کی مالا جپتے ہیں جبکہ بلوچستان میں پچھلے عرصہ میں بنے والی تحریکوں میں کوئی بھی تحریک کسی نام نہاد روایات کے مرہون منت نہیں رہی اور نہ ہی یہ رویات تحریک کی قیادت کے اہل تھے۔ سٹیج پر دو لفظ روایتی لفاظی کو اگر کوئی روایتوں کا دوبارہ زندہ ہونا کہے تو یہ ان کی بیوقوفی اور بزدلی ہوگی۔

ملک ناز کے گرد بننے والی تحریک ہو یا سیما بلوچ کے گرد، یہ تمام تر تحریکیں بلکل خودرو طریقے سے ابھری تھیں اور کوئی بھی روایاتی پارٹی یا قیادت اس اہل نہیں تھا کہ وہ ان تحریکوں کی قیادت کر سکیں۔ ان تحریکوں نے روایتوں کے دھندلے چہرے بھی مزید عیاں کردیئے اور وہ نئی بننے والی تحریکیں روایتی قیادت سے دو قدم آگے کھڑے ہیں۔

فطرت کسی بھی خلا کو پسند نہیں کرتی۔ ماضی میں غلط طریقہ کار کی بنیاد پر جنم لینے والے سیاسی خلا کو ریاست نے اپنے ڈاکوں، چوروں اور لنگوں سے پر کرنے کی کوشش کی لیکن آج ریاست اس میں بھی کامیاب نہیں ہو پارہی کیوں بلوچستان کے سماجی ڈھانچوں میں اس کی گنجائش ہی موجود نہیں۔

اس پوری صورت حال میں آج ضرورت ایک مضبوط سائنسی نظریہ اور ایک سیاسی تنظیم کی ہے جس کی ۔ مارکسی بین لاقومیت ہی ظلم پر مبنی نظام کے خاتمے کی ضمانت ہے۔
چلے چلو کے ہر ایک زخم کو زباں کر دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔