بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں – بی ایس او آزاد

135

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تشدد کے شکار عالمی افراد سے اظہار ہمدردی اور عالمی یوم منشیات کے دن کی مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں۔ آئے روز لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انکی مسخ شدہ لاش پھینکی جاتی ہیں۔

بلوچ قوم اپنی آزادی کی جدوجہد عالمی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کررہی ہیں لیکن ریاست اور اس کے ادارے عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور بچوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے۔

جبری گمشدگی، تشدد اور جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس پہ عالمی اداروں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔

ترجمان نے تشدد کے شکار افراد کے عالمی دن کے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی جنگ عظیم دوئم میں کئی افراد کو جنگی قیدی بنا کر ان پہ شدید تشدد کیا گیا اس لئے پہلی بار چھبیس جون 1945 کو جنرل اسمبلی میں چارٹر پہ دستخط کئے گئے اور دوسری مرتبہ چھبیس جون 1987 کو تشدد کے خلاف، تشدد کے شکار افراد سے اظہار ہمدردی اور تشدد کے انسداد کے خلاف ہر سال تشدد کا عالمی دن منانے کی تجویز دی گئی جس کی جنرل اسمبلی نے منظوری دی۔ اس کے بعد چھبیس جون 1998 سے ہر سال اس دن کو منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں تشدد کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائے جاسکے۔
لیکن بلوچستان کی صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے دیگر اداروں کے اصول و ضوابط اور قوانین پہ عمل درآمد کرنے کے لئے پالیسیوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ریاست پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں شدت لارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے شق نمبر نو میں واضح طور پر تحریر کنندہ ہے کہ کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کو اغوا کرے یا نظر بند رکھ کر تشدد کریں لیکن بلوچستان میں ماورائے عدالت گرفتاری اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی معمول کے واقعات میں شمار ہوتے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ چھبیس جون عالمی یوم منشیات کی مناسبت سے بھی پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد منشیات کی لعنت سے چھٹکارہ پانے کے لئے شعور و آگاہی پھیلانا ہے لیکن بلوچستان میں ریاست اور حکومت کی سربراہی میں منشیات کا کاروبار کیا جاتا ہے، بلوچ سماج کو پراگندہ کرنے اور اسے ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے کراچی سے لیکر مکران تک، بولان سے لیکر خضدار تک منشیات کا کاروبار عام ہے جسکی سرپرستی براہ راست ریاستی ادارے کررہے ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں بلوچ قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اتحاد و یکجہتی کا دامن پکڑ کر بلوچستان میں ریاستی پالیسیوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور منشیات جیسے کاروبار کا قلع قمع کرنے کے لئے عوام یکجا ہو کر آزادی پسند تنظیموں کے شانہ بشانہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔