بلوچستان کے تین اضلاع میں چوبیس گھنٹوں کے دوران طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث دو بچوں سمیت 3 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
ضلع کیچ کے علاقے مند میں تین سالہ شہداد کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں قریبی صحت مرکز لے جایا گیا جہاں سہولیات کی عدم دستیابی پر انہیں 120 کلو میٹر دور تربت شہر لے جانا پڑا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔
علاقائی ذرائع کے مطابق شہداد کو تیز بخار تھا لیکن علاقے میں طبعی سہولیات نہ ہونے کے باعث بروقت علاج نہیں ہوسکا۔ جبکہ مند سے تربت جانے والی روڈ خستہ حالی کے باعث انہیں تربت شہر بھی پہنچایا نہیں جاسکا۔
گذشتہ روز ہی ایک اور واقعہ نوشکی میں پیش آیا جہاں دوران علاج کمسن امیر الملک بلوچ انتقال کرگیا۔
کلی بدل کاریز سے تعلق رکھنے والا امیر الملک بلوچ ہیلپرز پبلک اسکول نوشکی کا طالب علم تھا جو پانچ جون بروز جمعہ کو سائیکل چلاتے ہوئے گر گیا تھا۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ امیر الملک کو سول ہسپتال نوشکی لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں کچھ دوائیاں دے کر ڈسچارج کردیا کہ بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن بچے کے جسم پر گہرے زخم ہونے کی وجہ سے خون جم چکا تھا، بچے کو شدید تکلیف ہونے کے باعث دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں کوئٹہ ریفر کردیا گیا۔
کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے امیرالملک کے آپریشن کرنے کا کہا لیکن وہ اس سے پہلے ہی جان کی بازی ہار گیا۔
خاران میں ابتدائی امداد نہ ملنے کے باعث 30 سالہ برکت علی بھی گذشتہ روز ہلاک ہوگئے۔
برکت علی دریچ روڈ گواش میں فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہوا تھا جنہیں خاران کے ڈویژنل ہیڈ کوارڈر ہسپتال لے جایا گیا جہاں سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث انہیں کوئٹہ ریفر کردیا گیا جبکہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔
علاقائی صحافیوں کے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال خاران کے سرجن نے زخمی شخص کے رشتہ داروں کو یہ کہہ کر آپریشن سے معذرت کرلی کہ ہسپتال میں بجلی نہیں ہے جس کے باعث آپریشن نہیں کیا جاسکتا ہے۔ زخمی شخص کوئٹہ پہنچنے سے پہلے ضلع نوشکی کے حدود میں دم توڑ گیا۔
بلوچستان کے اکثر علاقوں میں طبعی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث مذکورہ نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں بھی اکثر زخمی افراد ابتدائی طبعی امداد نہیں ملنے کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔
دور دراز علاقوں میں بی ایچ یوز کی خستہ حالی کے باعث دوران زچگی خواتین کے اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ایک لاکھ خواتین میں سے 850 خواتین دوران زچگی ہلاک ہوتے ہیں۔
رواں سال اپریل کے مہینے میں ضلع ڈیرہ بگٹی میں انتظامیہ کی جانب سے راہداری نہیں ملنے کے باعث زین کوہ کا رہائشی مریض کنہل بگٹی ہلاک ہوا تھا جس پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چوبیس گھنٹوں کے دوران مذکورہ مریضوں کے ہلاکت پر عوام ضلعی انتظامیہ، حکومت اور اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ مذکورہ اضلاع میں ایمبولنس، جنریٹر اور دیگر صحت کے سہولیات کی عدم موجودگی اور علاقوں میں سڑکوں کی خستہ حالی پر علاقائی نمائندوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے تاہم کسی نمائندے کی جانب سے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔