برمش یکجہتی کمیٹی
تحریر: ریکی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
برمش یکجہتی کمیٹی کی طرف سے نہ صرف بلوچستان بلکہ لاہور، اسلام آباد سمیت بیرون ممالک میں بھی احتجاج ہورہا ہے یہ احتجاج نہ صرف .بی بی ملک ناز کو شہید کرنے یا .برمش کو زخمی کرنے کیلئے ہورہے ہیں بلکہ پورے بلوچستان سے ڈیتھ اسکواڈ کے خاتمے اور ایسے کئی برمشوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف اور مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے ہورہے ہیں۔
برمش یکجہتی کمیٹی کے ساتھ آل پارٹیز کا اظہار یکجہتی نیک شگون ہونے کے ساتھ حیران کن اور غور طلب بھی ہے۔ ان بلوچ پرست پارٹیوں کا اظہار یکجہتی اس لیے نیک شگون ہے کہ ان پارٹیوں کی طرف سے مظلوموں کی حق میں آواز اٹھانے سے مظلوموں کی آواز اسمبلیوں تک پہنچی، بلوچستان میں ہونے والے احتجاجوں کو نہ ہی میڈیا کیلئے کوئی اہمیت ہے اور نہ میڈیا کو انہیں کوریج دینے کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔
ان سیاسی پارٹیوں کی اسمبلیوں میں آواز اٹھانے اور اسمبلی اجلاسوں کی میڈیا کوریج ہونے کی وجہ سے بلوچستان پر ہونے والے مظالم سے کچھ نہ کچھ لوگ آگاہ تو ہوئے۔
آل پارٹیز میں شامل بلوچ پارلمینٹ پرست پارٹیوں کی اظہار یکجہتی حیران کن اور غور طلب اس لیئے ہے کہ جن ڈیتھ اسکواڈوں کے خاتمے اور ان کیخلاف قانونی کاروائی کرنے کیلئے احتجاج ہو رہا ہے، ان بلوچ سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران اور قائدین کی بھی ان ڈیتھ اسکواڈوں کے ساتھ مفادات اور تعلقات ہیں جن کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔
صرف سمیر سبزل ہی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے نہیں بلکہ بلوچستان بھر کے ہر تحصیل اور ضلع میں الگ الگ بہت سے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے ہیں جن سے ان سیاسی پارٹیوں کے مفاد اور تعلقات ہیں۔
2018 ..کے الیکشن میں .N.P یعنی نیشنل پارٹی کے وڈھ جھالاوان کے کے سیٹ پر اتحادی حق ئنا توار نامی ڈیتھ اسکواڈ گروپ کے سربراہ جھالاوان عوامی پارٹی کے امیدوار میر شفیق الرحمن مینگل تھے، جو نہ صرف جھالاوان بلکہ پورے بلوچستان بالخصوص سراوان، جھالاوان میں منظم حق ئنا توار نامی ڈیتھ اسکواڈ گروپ کے سرغنہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی نیوز گروپ، بلوچستان یوتھ وائس کے نمائندہ .محمد عمران کے مطابق
20018 .کے الیکشن میں بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر ظفراللہ زہری نے جھالاوان عوامی اتحاد کے امیدوار حق ئنا توار نامی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ میر شفیق الرحمن سے انتخابی اتحاد کیلئے کئی بار رابطہ کیا۔
بلوچستان پر ہونے والے مظالم کے ردعمل میں بلوچ عوام صوبائی حکومتوں کوہمیشہ شریک جرم سمجھتی ہے، اس توسط سے بلوچستان نیشنل پارٹی کا موجودہ صوبائی حکومت کا اتحادی ہونا بھی بلوچ عوام کے ہاں شریک جرم ہی ہوگا۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ریاست اور ریاستی اداروں کیلئے ہمیشہ مقدس گائے ہی رہے، جس کی واضع ثبوت بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشنوں کے دوران کئی لوگ گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے گئے اجتماعی قبروں کی دریافت کے ساتھ کئی لوگوں کی مسخ شدہ لاش ملے اور سیاست دانوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں اور زندانوں میں ڈالا گیا یہ سب ہونے کے باوجود بھی ڈاکٹر صاحب کی پوری سیاسی کیریئر میں .1973 کو اسلام آباد جاتے ہوئے صرف ایک دن کیلئے گرفتار ہونا ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا ریاست کیلئے مقدس گائے ہونا نہیں تو کیا ہے؟
ان پارٹیوں کا برمش یکجہتی کمیٹی کے ساتھ اظہار ء یکجہتی کرنا بلوچ عوام کیلئے شکوک وشبات سے خالی نہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی بالخصوص سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی سردار اختر جان مینگل کا ڈیتھ اسکواڈ کا اہم کارندہ میر قمبر خان مینگل کے ساتھ تعلقات اور ہمدردیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، میر قمبر خان مینگل کا شہید شاہ داد اور شہید احسان کے علاوہ اور بھی کئی بلوچوں کو شہید کروانے میں اہم اور مرکزی کردار رہا ہے۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ سردار اختر جان کا میر قمبر خان کے ساتھ قبائلی تعلقات ہیں، تو اس کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میر قمبر خان کے علاوہ میر شفیق الرحمٰن، میر موسی خان اور میر کوہی خان کے علاوہ اور بھی ڈیتھ اسکواڈ کے کئی ایسے کارندے ہیں جو سردار صاحب کے ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے ساتھ سردار صاحب کے قبائلی تعلقات کیوں نہیں حتیٰ کہ میر کوہی خان کا میر قمبر خان کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود بھی سردار صاحب کا میر کوہی خان کے ساتھ تعلق نہیں تعلقات ہمیشہ مفادات کے تحت ہوتے ہیں، شاید مفادات کے تحت ہی سردار صاحب ان ڈیتھ اسکواڈوں میں گڑ ڈیتھ اسکواڈ اور بیڈ ڈیتھ اسکواڈ کا فرق محسوس کرتے ہیں۔
سانحہ ڈنک سے پہلے بھی بلوچستان کئی واقعات رونما ہوئے، جن میں گھروں کو جلانے اور عوام کو گھروں سے بیدخل کرنے کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کی طرف سے بزرگ بلوچوں کے مونچھ کاٹنا اور مار مار کر پگڑی گرانا اور زبردستی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوانا اور معصوم بلوچ طلباء کے ساتھ جسمانی زیادتی جیسے ظلم ہوئے، سوشل میڈیا پر ان مظالم کا ویڈیو وائرل ہونے کے باوجود بھی یہ سیاسی پارٹیاں خاموش ہی رہیں۔ اب عوام کی طرف سے سانحہ ڈنک میں ہونے والے ظلم اور ڈیتھ اسکواڈوں کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں ان پارلیمنٹ پرست پارٹیوں کے کارکنوں اور عہدیداروں کا میدان میں کودنا مظلوموں کے ساتھ ہمدردی سے زیادہ سیاسی دکانداری ہوسکتی ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ پرست پارٹیاں ان احتجاجوں کو اپنے نام کرنے کی چکر میں ان عوامی احتجاجوں کو کاونٹر نہ کریں۔
بلوچ عوام کیلئے مسئلہ ان پارٹیوں کا احتجاجوں میں شرکت کرنا نہیں بلکہ ان کا روز قبلہ بدلنا ہے۔ بقول نواب خیربخش مری بلوچ قوم پرست پارٹیاں دو کشتیوں میں سفر کرنے والے مسافر ہیں جو حالات دیکھ کر کشتی بدلتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔