برمش کو انصاف کون دیگا؟ – امین بلوچ

208

برمش کو انصاف کون دیگا؟

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سانحہ ڈھنک بلوچستان کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہونے والا ایک معمولی واقعہ ہے، جو معمول کے مطابق بلوچستان کے شہر شہر اور قریہ قریہ پیش آتا رہتا ہے۔ چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی ہو یا بلوچ قومی غیرت پہ حملہ، خواتین کی ماورائے عدالت گرفتاری ہو یا انکی شہادت کا واقعہ۔ چوری اور ڈکیتی کے دوران ہلاکت ہو یا تیزاب پاشی کا واقعہ اور غیرت کے نام پہ روز کئی خاتون مارے جاتے ہیں، کئی زخمی ہوجاتی ہیں۔ حالیہ ڈھنک واقعہ معمولی واقعہ ہے اور ایسے واقعات مستقبل میں بھی پیش آتے رہینگے، ہر روز بی بی حلیمہ اور بانک شہناز کو شہید کیا جائیگا، برمش روز یتیم ہوگی۔ ماہ رنگ، سمی، مہلب اور سیما روز مِسنگ پرسنز کیمپ میں اپنے والد اور بھائی کے لئے احتجاجی کیمپ میں شریک ہونگے۔

کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ریاستی آئین کے سائے میں رہ کر بلوچ کو نہ انصاف کی توقع ہے اور نہ ہی توقع کرنی چاہئیے کیونکہ بلوچ کا مسئلہ آزادی سے نتھی ہے، جب تک غلامی ہے برمش یتیم ہوتی رہے گی اور برمش انصاف کے لئے سڑکوں پہ احتجاج کرتی رہے گی اور اسے انصاف دینے والے خود ظلم کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔

بلوچستان میں لاکھوں برمش ہیں، جو انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد عدم راہی کوچ کرجاتے ہیں یا مایوس ہو کر بیٹھ جاتی ہیں۔ ذاکر مجید کی ماں گیارہ سال سے اپنے لخت جگر کی راہ تک رہی ہے، اسے کون انصاف دیگا۔ چئیرمین زاہد کے والد صاحب کی روح انصاف کے لئے تڑپ رہا ہے، جس نے بڑھاپے میں اپنے بیٹے کی جدائی کا غم برداشت کرکے دنیا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کو انصاف کون دیگا جس نے کم سنی میں والد کا سایہ سر سے اٹھتے دیکھا؟ برمش کو انصاف کون دیگا جس کی ماں کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے شہید کیا؟

بحثیت بلوچ ہم کس سے انصاف کی امید رکھیں؟ اس ریاست سے جس نے سمیر سبزل، راشد پٹھان، قمبر خان مینگل، شفیق مینگل، ملا برکت، امام بھیل اور ایسے کئی دہشت گردوں کو طاقت عطا کرکے بلوچستان میں خوف کی فضا کو جنم دیا، ہم انصاف کی توقع جام کمال سے رکھیں جسے عوام مفاد میں فیصلے لینے کے بجائے ریاستی مفاد عزیز ہے؟ اختر مینگل جس نے چاغی کی سرزمین کو کینسر زدہ بنانے میں ریاست کی حمایت کی یا ڈاکٹر مالک سے جس نے ڈھائی سالہ دور میں بلوچستان کو جہنم میں بدل دیا؟

ریاستی اداروں سے لیکر حکومتی ادارے بلوچ نسل کشی میں ایک صفحے پہ متحد ہیں اور ان سے انصاف کی توقع رکھنا اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سانحہ ڈھنک نے عوام کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچایا ہے اور جذبات کی شدت نے پورے بلوچستان تربت، گوادر، پسنی، خضدار، خاران، کوئٹہ، کراچی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، مختلف شہروں میں احتجاجی پروگرام منظم کئے جارہے ہیں اور عوام کا جم غفیر ان پروگراموں میں شرکت کرکے اپنے زندہ دلی کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ کیچ کی سر زمین نے شہید غلام محمد اور شہید رضا جہانگیر کی شہادت کے بعد اتنی بڑی تعداد میں عوام کا جم غفیر نہیں دیکھا۔ جو عوام کئی دہائیوں سے غصے اور مایوسی کی کیفیت میں تھے اس واقعے نے انہیں زبان عطا کی کہ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔

موجودہ سیاست کا اگر سائنسی بنیادوں پہ تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سیاست میں رحم دلی اور ہمدردی کا عنصر نہیں پایا جاتا اور نہ ہی جذبات کی بنیاد پہ سیاسی مفاد کو حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ سیاست نام ہے معروضی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنے قومی مفاد کو حاصل کرنا ہے لیکن بلوچ کی بدقسمتی دیکھیں کہ عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور انہیں حقیقی انصاف سے محروم رکھنے کے لئے سیاسی سوداگر ایک جگہ مجتمع ہیں، جنکے مطالبات ہیں کہ برمش کو انصاف فراہم کیا جائے۔ اسکی ماں کے قاتلوں کو سزا دی جائے یا ملوث عناصر کی پشت پناہی کرنے والے حکومتی عناصر کو منظر عام پہ لایا جائے۔

پارلیمانی پارٹیوں کے مطالبات ماننے کے بعد کیا برمش کو انصاف مل جائیگا؟ کیا سمیر سبزل، یاسر بہرام، کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد کیچ اور بلوچستان کے عوام ایسے واقعات سے بچ پائیں گے؟ ظہور بلیدئی، جام کمال, قدوس بزنجو کو ڈیتھ اسکواڈ کی پشت پناہی کے عمل کی وجہ سے منظر عام پہ لانے کے بعد لوگوں کی جبری گمشدگی میں کمی واقع ہوگی؟

نہیں ہرگز نہیں کیونکہ بلوچ عوام کا مسئلہ غلامی کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے پیچھے پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج کا ہاتھ ہے، جب تک پاکستانی فوج بلوچستان میں موجود ہے اس طرح کے واقعات روز کا معمول ہیں، جب تک غلامی کا وجود ہے ہزاروں برمش انصاف کے لئے بھٹکتی رہیں گی۔

اس واقعے سے قبل لاپتہ افراد کے حوالے سے،سانحہ توتک، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پہ کئی احتجاج اور مظاہرے کئے گئے ہیں لیکن آج تک بلوچستان کے عوام انصاف سے مستفید نہیں ہوسکے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں انصاف سے مستفید ہونگے کیونکہ بلوچوں کو انصاف کی نہیں، بس آزادی کی ضرورت ہے اور آزادی کے حصول کے لئے آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو عوام اجتماع کے جذبات کو شعور میں بدلنے کی ضرورت ہے۔

ان جذبات کو شعور میں تبدیل کرنے اور جدوجہد کی سمت کو واضح کرنے کے لئے بلوچ آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو حکمت عملی مرتب کرکے میدان عمل میں آنا ہوگا کیونکہ اختر مینگل، اور ڈاکٹر مالک کی موجودگی میں جذبات شعور میں تبدیل ہونے کے بجائے ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور عوام کی جم غفیر جو ریاستی غنڈہ گردی سے تنگ آکر حقیقی انصاف یعنی آزادی کے لئے میدان عمل کا حصہ بنی ہیں اور اس آزادی کے جدوجہد کو منزل پہ پہنچانا ہی برمش اور دیگر متاثرہ لوگوں کے لئے انصاف ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔