باکمال لوگ لاجواب سفر ۔ بختیار رحیم بلوچ

386

باکمال لوگ لاجواب سفر

بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

باکمال لوگ لاجواب سفر کا سنہری جملہ پاکستان کے تمام صوبوں میں کوچوں بسوں اور وینوں کے ٹکٹوں اور آگے پیچھے کے شیشوں پر بہت خوبصورت رنگیلی اسٹیکروں سے لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ گاڑی چاہے جتنا پرانا کباڑا کیوں نہ ہو۔ مالک چاہے جتنا فراڈ لالچی دھوکہ باز کیوں نہ ہو بہرحال یہ جملے ہر حال میں ٹکٹ پر لکھوانا ضروری سمجھتے ہیں۔

میرا بھی ایک دکھ درد اور ہنسیلی سفر یہی باکمال لوگ اور لاجواب سفر سے منسلک ہے۔ یقیناً پڑھنےوالے یا تو مجھ پر ہنسیں گئے یا ان گاڑی مالکان پر جو ہر حال میں یہ جملے ٹکٹوں پر لکھوانے اور اپنے گاڑیوں کے آگے پیچھے کے شیشے پر اسٹیکر سے چپکوانے پر ہر حال میں مجبور کیوں ہیں۔

دوہزار بارہ کاایک اتوار کا دن تھا۔ خضدار میں سیکینڈئیر کے امتحاں دینے گیا تھا ۔ امتحاں کا آخری پیپر ختم ہوا ۔ مجھے کراچی آنا تھا۔ اس وقت میں خضدار ڈگری کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ ہاسٹل سے کراچی جانے والی بسوں اور وینوں کا اسٹاپ آدھے گھنٹے کا سفر تھا۔ میں جب ہاسٹل سے نکلا تین بجے کا وقت تھا۔ کپڑے اور کتابیں اپنے بیگ میں پیک کرکے اٹھا کر بسوں کے اسٹاپ گیا۔ وہاں ایک دو وین کھڑے تھے، میں نے ایک وین والے سے کراچی لیمارکیٹ کا ٹکٹ کٹوایا۔ ٹکٹ بیگ کے جیب میں ڈال کر سامنے ایک چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے منگوا کے پینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وین کنڈیکٹر نے چلو چلو کراچی چلو کی آوازیں دینا شروع کیا۔ تو میں نے چائے جلدی سے ختم کرکے اپنے سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے ایک دو کلو میٹر جاکر گاڑی روک دی۔

ایک سواری سے فون پر بات کرنے لگا اوراسے جلدی آنے کو کہا۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد سواری پہنچ گیا۔ گاڑی چلتے چلتے وڈھ سے آگے آکر پنکچر ہوگئی، ساڑھے چار بجے کا وقت تھا۔ سب مسافر گاڑی سے اتر کر روڈ کے کنارے درختوں کے نیچے جاکر بیٹھ گئے۔ گاڑی ڈرائیور اور کنڈیکٹر ٹائر نکال کر دوسری ٹائر ٖفٹ کرنے لگ گئے۔ ٹائر فٹ کرکے چلو چلو کی آوازیں شروع ہوگئیں۔ سب مسافر اپنے اپنے سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ گاڑی تیار ہوکر چلنا شروع ہوگیا۔ آتے آتے بیلہ پہنچنے سے پہلے ڈیزل ختم ہوگئی، گاڑی ائرلوک ہوگیا، سب مسافر بپچارے پھر اتر گئے۔ روڈ کے قریب دھوپ میں جاکر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے دوسری گاڑی کی ڈرائیور کو فون کیا۔ بتا دیا کہ ڈیزل ختم ہے جلدی پہنچ جاؤ۔ کافی دیر بعد دوسری وین پہنچی، اس کے ٹینک سے تھوڑی سی ڈیزل نکال کر ڈال دیا، دونوں وین چلتے چلتے حب چوکی پہنچ گئے، وقت ساڑھے نو بج گیا تھا۔ دونوں گاڑیوں کے کنڈیکٹر چلو چلو حب چوکی آگیا۔ دونوں گاڑیوں سے حب چوکی کی سواری اترگئے۔ کچھ بندے بچ گئے جو کراچی لیمارکیٹ جانے والے تھے۔ ڈرئیور نے ہم کو دیکھا کہ ہم نہیں اتر رہے ہیں، ہمیں بولا بھائی اتر جاؤ۔ ہم نے بولا ہم نہیں اتریں گے، ہمیں لیمارکیٹ جانا ہے۔ ہم نے کرایہ لیمارکیٹ تک کا دیا ہے بولا میں ابھی آگے نہیں جاؤں گا۔ آپ لوگ اتر جائیں سب نے یہی کہا ہم نے لیمارکیٹ کا کرایہ دیا ہے ادھر کیسے اتر جائیں۔ ہمیں لیمارکیٹ جانا ہے، ہم کو لیمارکیٹ چھوڑ دو۔ ۔کسی کی کچھ نہ سنی گاڑی بند کر دیا۔ سامنے ہوٹل میں جاکر بیٹھ گیا۔

سب مبجور تھے ٹائم دیر ہوگئی لیکن مزید بحث کرنے سے ٹائم اور ضائع ہوتا لیکن اور کچھ نہیں ملتا میں بھی بستہ اٹھا کر اتر گیا، سامنے روڈ پر ایک لوکل بس کراچی لیمارکیٹ جانے والا تھا ۔ جا کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ سیٹ میں ساتھ ایک بندہ آکر بیٹھ گیا۔ حال احوال کے بعد ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا نام جگہ بتا دیا ۔ پوچھنے سے معلوم ہوا بچارے کو لیمارکیٹ کھارادر میں ایک ہسپتال جانا ہے۔ اس کا بھائی بیمار ہے۔ لسبیلا کا بندہ ہے۔

بس چلتے چلتے لیمارکیٹ پہنچ گئی ۔ ہم دونوں اتر گئے ۔ اس نے مجھے کہا آپ کو کہاں جانا ہے ۔ میں نے کہا مجھے قائد آباد جانا ھے۔ میں یہاں سے جاکر سندھ والے گاڑیوں کے اسٹاپ جا کر دیکھتا ہوں اگر کوئی جانے والی گاڑی ہوتو میں چلا جاؤں گا۔ اس نے مجھے کہا پھر چلو چلتے ہیں، دیکھتے ہیں جانے والا گاڑی ہے، آپ سوار ہو کر چلے جاؤ۔ پھر میں وہاں سے پیدل ہسپتال جاوں گا۔

میں نے اسے کہا آپ جاؤ ہسپتال، میں خود چلا جاؤں گا۔ وہ چلا گیا اس کے جانے کے بعد میں سندھ ٹھٹھہ جانے والی گاڑیوں کے اسٹاپ گیا۔ بہت سناٹا تھا۔ میں سمجھا شاید کوئی جانے والی گاڑی ہو گی کیونکہ یہ گاڑیاں رات دیر تک چلتے ہیں۔

میں نے آواز دیا بھائی قائد آباد جانے والا گاڑی ہے؟ کسی گاڑی سے آواز آئی آجاؤ مجھے ہزار روپے دے دو میں آپ کو موٹر سائیکل سے پہنچا دونگا۔ یہ بات میں سن کر میں سمجھ گیا، یہ کوئی چور ڈکیت ہوگا، میرا پیسہ موبائل چھین لے گا۔ میں بھاگنے لگا۔ بھاگ کر تھوڑا دور آیا، پیچھے مڑ کر دیکھا دو نوجوان گاڑیوں کے آگے پیچھے اَدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں ۔ شاید میں انہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں بھاگ بھاگ کر گل بلوچستان ہوٹل گیا۔ ایک کمرہ کرایہ پہ لیا رات گزارہ، صبح اٹھ کر نہا دھو کر ناشتہ کرکے بیگ اٹھا کر رات والی گاڑیوں کے اسٹاپ پہ گیا ایک گاڑی تیار تھی۔ بیٹھ کر گھر آگیا۔

اس سفر سے پتہ چلا کہ نہ یہ گاڑی لاجواب تھی، نہ مسافر باکمال تھے ۔ گاڑی اگر لاجواب ہوتی تو رات کے اس پہر مسافروں کو روڈ پر بے یار مددگار نہیں چھوڑتے، اگر مسافر باکمال ہوتے اس دن گاڑی والے نے کرایہ لیمارکیٹ کی لی تھی تو اس کے کہنے پہ حب چوکی پر نہیں اتارتے اگر مجبوراً اتارنے تھے، تو پیسے واپس کرتے۔

یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا تھا بلکہ یہ روز کا معمول ہے، نال اور خضدار کے گاڑی مالکان جو باکمال لوگ لاجواب سفر کے ٹکٹ اسٹاپ پر محبت سے بانٹ کر کرایہ وصول کرتے ہیں لیکن پھر آخری منزل سے پہلے راستے میں دھوکہ دے کر بے یار مددگار چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور اس رات میں باقی بےچارے مسافر کہاں گئے رات کو کیسے گزارا یہ انہیں خود معلوم ہے لیکن گاڑی والے کو نہیں اور کہتے ہیں انسان سبق سے سیکھتا ہے لیکن میں نے بھی اس سفر سےبہت کجھ سبق سیکھ لیا۔

اب مجھے ہمیشہ جہاں جانا ہوتا ہے میں ایک دو دن پہلے ٹکٹ کٹواتا دیتا ہوں، ٹکٹ پر باکمال لوگ لاجواب سفر کے جملے سے زیادہ یہ دیکھتا ہوں گاڑی کے مالک اور ڈرائیور کتنا ایماندار اور سچے اور مخلص ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔