بلوچی کے معروف شاعر و ادیب اکبر بارکزئی نے حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے بلوچی نثر میں بہترین کتاب کا اعلان کیا گیا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
یہ خبر انہوں نے میڈیا اداروں کو بذریعہ ای میل بھجوائی ہے اور اس حوالے سے اپنا تفصیلی مؤقف شائع کرنے کی گزارش کی۔
انہوں نے اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک کے نام لکھے گئے ای میل میں کہا ہے کہ مجھے ایک دوست کے ذریعے علم ہوا کہ میری کتاب کو اکادمی ادبیات کے ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے، اس عزت افزائی پر میں آپ کا شکرگزار ہوں مگر معذرت خواہ ہوں کہ میں یہ ایوارڈ لینے سے قاصر ہوں۔
میڈیا نمائندوں کی جانب سے ایوارڈ قبول نہیں کرنے کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ یقیناً اس کا سبب بلوچستان پر حکومت کی مسلط کی گئی پالیسیاں ہیں جنہوں نے عوام کو محکوم بنا رکھا ہے۔
واضح رہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اعلان کے مطابق “قومی ادبی ایوارڈ 2018” (انعام دو لاکھ روپے) کے تحت مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی کئی کتابوں کو ایوارڈ کا اعزاز ملا۔ ان ہی میں بلوچی زبان میں چھپنے والی اکبر بارکزئی کی کتاب “زبان زانتی ءُ بلوچی زبان زانتی” کے لیے نثر کے شعبہ میں سید ظہور شاہ ہاشمی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ جسے انہوں نے لینے سے انکار کر دیا ہے۔
اکبر بارکزئی بلوچی شعر و ادب کا معروف نام ہیں۔ وہ بنیادی طور پر لیاری سے تعلق رکھتے ہیں۔ سن ستر کی دہائی میں بائیں بازو کی سیاست میں متحرک رہے۔ ان کا شعری مجموعہ “روچ ءَ کئے کشت کنت” کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اَسی کی دہائی میں مستقل طور پر لندن منتقل ہوگئے۔ اس وقت اُن کی عمر اَسی سال کے قریب ہے۔ وہ اب بھی بلوچی ادب سے وابستہ ہیں اور مستقل ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جنرل مشرف کے دور میں حکومت سے اختلاف کی بنیاد پر پروفیسر نادر قمبرانی اکادمی ادبیات پاکستان کا ایوارڈ واپس کر چکے ہیں۔ صبا دشتیاری نے بھی احتجاجاً ایوارڈ واپس کر دیا تھا، البتہ ایوارڈ کی رقم انہوں نے سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کو عطیہ کر دی تھی۔