آؤ ہمارے ساتھ چلو – شہزاد بلوچ

618

آؤ ہمارے ساتھ چلو

 تحریر : شہزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کوئٹہ میں جو ہوا شاید دنیا کی تاریخ میں کہیں انصاف اور آئنی حقوق کی جدوجہد میں طالب علموں کے ساتھ روا رکھا گیا ہو۔ تاریخ میں جب طلباء و طالبات آزادی، حق خودارادیت کے نعروں کے ساتھ نمودار ہوئے، تو انہیں زندان میں ڈالا گیا، تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا اور اسکی مثال بلوچستان سے ہی مل جائے گی، جب آزادی کے نعرے لگائے طلبہ پکڑے گيے،مارے گئے اور آج بھی کئی طلبہ رہنماء لاپتہ ہیں۔

لیکن کل کوئٹہ میں جو طالب علم آزادی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق اپنا حق مانگ رہے تھے اور وہ حق کیا تھا کہ ہمیں انٹرنیٹ کی سہولیات دی جائے، ہمیں بجلی فراہم کی جائے، یا موجودہ حالت میں جب تک ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے کو ملکی معروضی حالات کے مطابق نافذ نہیں کراسکتی تو اس اعلامیہ کو منسوخ کردایں۔

سادہ سے مطالبات جن کو پورا کرنا وفاقی حکومت،صوبائی حکومت کی ذمہ داریوں کا حصہ تھا اور اسکے لئے طالب علموں نے کراچی، اسلام آباد، خضدار،سوراب،قلات،تربت،گوادر سمیت بیشتر شہروں میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور یہی مطالبات کئے کہ سہولیات دو، ہم کلاسز لینگے،اگر سہولیات نہیں دے سکتے تو فیصلہ منسوخ کرانے کے احکامات جاری کئے جائیں لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کے بجائے طالب علموں پہ الزامات دھر رہی ہے جو تعلیمی آقاؤں کی ہٹ دھرمی کا واضح ثبوت ہے۔

اسی احتجاجی سلسلے کو وسعت دیتے ہوئے، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا گیا اور کیمپ کے تیسرے دن طالب علموں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا گیا،انہیں جس طرح زد کوب کیا گیا، طالبات کے سروں کے چادر کو کھینچا گیا، اسکی مثال تاریخ میں ہی شاید ملے۔

آخر ان طالب علموں کا کیا قصور ہے کیوں انہیں روڈوں پہ ذلیل خوار کیا جارہا ہے؟ کیوں طالب علم کو سڑکوں پہ آنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر بعد میں جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ کیوں تعلیم کو طبقاتی بنا کر غریب طالب علموں سے ان کا آئینی حقوق چھینا جارہا ہے؟

کیا بلوچستان کے طالب علم مار کھانے یا تشدد سہنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں؟ کیا ان طالب علموں کی ماؤں نے نو مہینے اس لئےتکلیف سہہ کر انہیں جنم دیا کہ انہیں زندانوں میں مار مار کر شہید کیا جائے؟ یا اس لئے کہ انہیں روڈوں پہ گھسیٹا جائے؟ کل کے واقعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان ایک تجربہ گاہ اور طالب علم استعمال ہونے والے میٹریل ہیں۔

طالب علموں کو چاہئے کہ اپنے احتجاج کو وسعت دیں اسطرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف یک مشت ہو کر جدوجہد کریں کیونکہ یہ سرمایہ داروں اور وڈیروں کے چیلے آپکو پڑھنے نہیں دینگے وہ ہر روز آپکے سامنے مسائل لاکر آپکو ذہنی دباؤ کا شکار بناتے رہینگے۔

مزاحمت ہی آپکی جیت ہے اور آپکی جیت قوم کی جیت ہے۔ قوم کی کشتی آپکو ہی پار کرانی ہے اس لئے مستقل مزاجی سے جدوجہد جاری رکھیں اور ان طالب علموں کو باور کرائیں کہ آپکی جدوجہد طبقات سے بالاتر ہے اور تمام طالب علموں کے حقوق کی جدوجہد ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔