انجیرہ واقعہ ایک سونامی سے کم نہیں
تحریر: وشین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو جب بھی ہم کسی شہر یا علاقے کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں اس علاقے سے منسلک چیزیں گردش کرنے لگتے ہیں، جیسے ہم کسی عالمی شورش کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں رشیا، فرانس جیسے ممالک سے متعلق خیالات جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اپنے ہاں بلوچستان کے کسی علاقے کا نام لیتے ہیں تو اسی علاقے کے کسی عظیم انسان کے زندگی کو مرکزِ توجہ بنا دیتے ہیں۔
بلوچستان میں جب بھی زہری کا نام لیا جاتا ہے تو ہر شخص کے ذہن میں سب سے پہلے مزاحمت کو تقویت بخشنے والے نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کا اپنے قوم و وطن کے لیے انتھک جہد، ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو، غفلت میں گم ذہنوں کو، ڈرے سہمے دلوں کو حرکت میں لاتا ہے۔ آج اُسی نوروز کی قربانی کو اپنے پائوں تلے روند نے میں زرکزئی خاندان کے افراد سرگرم ہیں۔
انجیرہ میں پیش آنے والا واقعہ افسوسناک ہے لیکن کیا ہم صرف افسوس کرینگے اور مزید بے گناہ لوگوں کے مرنے تک کا انتظار کرینگے۔ زہری میں اب تک کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں اور آنے والے بھی ہیں، جو نا ہمارے قسمت میں یہ لکھا ہے اور نہ ہم ایک دوسرے کے خون کے اتنے پیاسے ہیں، جو بلا وجہ اٹھ کر مسجد میں نمازیوں کو بے دردی سے قتل کردیں یا پھر دل پر پھتر باندھ کر عید کی رات 5,5 گھروں میں ایک نا ختم ہونے والی آگ جلا دیں، جن کے بچے اور بیواوں کی زندگی میں اس رات کے بعد کبھی عید آیا ہی نہیں۔ یا پھر اس بیوی اور بچی کا کیا قصور جن کے والد کو ان کی آنکھوں کے سامنے ویگن سے اتار کر اس کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ جنکا کوئی سہارا باقی نہیں رہا یا پھر مشک میں آباد سیدزئی قبیلے کے بے گناہ لوگوں کو راتوں رات موت کے گھاٹ اتارا گیا یا جمالزئ قبیلے کے کئی گھروں کو ویران کر دیا گیا۔ یہ سب ہونے کے باوجود ہم پر جوں تک نہیں رینگتا اور ہم لاشیں اٹھانے کو اپنے قسمت سے جوڑتے ہیں اور اسی ثناء اللہ زرکزئی اور نعمت زرکزئی کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہیں، جنہوں نے ایک دستار کے عیوض اپنے بھائی تک کو بے دردی سے قتل کردیا اور انہوں نے ہی اپنے ماموں امان اللہ خان کے لخت جگر کو سرعام چوک پر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ساتھ ساتھ امان اللہ کو بھی نہیں بخشا۔
یہ وہی ہے، جنہوں دودا خان کے گھر میں پنجابی فوج اور کچھ سیاہ کاروں کو گھسا کر اپنے ہی عورتوں کی تذلیل کی، اس کے علاؤہ بہت سے گھروں میں لوٹ مار کروا کر بلوچی روایات کو مٹی میں ملانے والے آپ کے اور میرے خیر خواہ اور ہمدرد نہیں ہو سکتے۔
موجودہ دور کے نواب، سردار، میر و ٹکر قبضہ گیر ظالم کے پشت پناہی میں اپنے ملک و قوم کا سودا لگا رہے ہیں، یہ اسپانسرڈ استعماری سرداری نظام ہے، جہاں قبضہ گیر بظاہر خود تو یہاں نہیں لیکن اس نے ہم میں سے ہی کچھ لوگوں کو لالچ دیکر انہیں بلوچ قوم و ملک کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ یہ سینڈیمن کا متعارف کرایا ہوا سرداری نظام جس کے خلاف آج سے سو (100)سال پہلے میر یوسف مگسی اور میر عبدالعزیز کرد اٹھ کھڑے ہوگئے تھے، آج سے سو سال پہلے بھی ہم پر برطانوی سامراج نے یہی ہتھکنڈے استعمال کرکے ہمیں غلام بنانے کی ناکام کوشش کی اور آج پنجابی بھی بلوچوں کے خلاف وہی طریقے استعمال کر رہا ہے۔
انجیرہ واقعہ ہو یا لہڑی لانگو کی جنگ یا پھر رند و رئیسانی قبیلے کے کئی بے گناہ لوگوں کا قتل، یہ سب سامراج کے ہی چال ہیں جو کہ ہمیں ہر طرح سے ختم کرنا چاہتا ہے۔
فرانز فینن لکھتا ہے کہ “جب مظلوم قوم سامراج کے ظلم و ستم سے تنگ آتا ہے اور کچھ کر نہیں سکتا (کرنا نہیں چاہتا) تو وہ اپنا غصہ اپنے ہی جیسے ایک مظلوم پر اتارنے کی کوشش کرتا ہے جیسے کہ ایک ہی قطار میں کھڑے آٹے کے لیے ہم ایک دوسرے کو دھکے لگا کر سامراج کا غصہ اپنے جیسے مظلوم پر اتارتے ہیں “
کہنے کا مقصد بلوچ قوم کو اب اس فرسودہ نظام کو الوداع کہنا ہوگا، اس غلامی سے اور تشکیل کردہ طبقاتی نظام سے خود کو اور اپنی آنے والے نسل کو آزاد کرنا ہوگا
اگر مرنے سے اتنا ڈر لگتا ہے، مرنا ویسے بھی ہے چاہے وہ روڈ ایکسیڈنٹ ( جو کہ ریاست خود کروا رہا ہے) ہو یا پھر کسی چور، لوفر یا سیاہ کار کے ہاتھوں مرنا ہو۔
ایک قول ہے کہ عوام کسی بھی قوت کو مسمار کرسکتے ہیں، تو ہم کیوں اس بھکاری ملک کے بھکاری فوج کو فرعون سمجھ کر اسکے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔
اسی زہری کے اندر نواب نوروز خان اپنے ملک و قوم کے خاطر کماشی میں پہاڑوں کو پنا گاہ بنا لیتا ہے مگر غلامی کو قبول نہیں کرتا جو کہ اج بھی بلوچ قوم کیا دنیا کے سامنے ذندہ ہے اور اسی نوروز خان کا بیٹا امان اللّٰہ اپنے راستے کو بھول جاتا ہے اور اسی سامراج کے ہاتھوں کچھ سیاہ کاروں کے بندوق کی گولیوں کا پیاس بجھا دیتا ہے، تو مرنا ہم سب کو ہے لیکن ایک بلوچ ہونے کے ناطے کب تک پنجابیوں کے اور ان کے پالے ہوئے کتوں (سرداروں) کا غلام بن کر اپنا جان گنواتے رہینگے۔
محمد علی خان بانزوزئی ہو یا کہ ثناء اللہ زرکزئی یا کوئی اور یہ اپنے مفادات کی خاطر کبھی بھی کسی کو قربانی کا بکرا بنا سکتے ہیں بلکہ بنایا بھی ہے جن سے امید لگانا فضول ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔